Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

راز مل گیا

          Print

آج کل فائزاکثر ہی گہری سوچ میں ڈوبا رہتا تھا ۔والدین ہوں، بہن بھائی یا دوست سب سے ہی بات کرنے اور ان کا سامنا کرنے سے کترا  رہا تھا۔ فائز پیارا سا گول مٹول سا  بچا تھا۔بچپن میں تو سب ہی اس کو بہت پیار کرتے تھے، ایک صحت مند بچے کے ساتھ کھیلنا اور گود میں اٹھائے اٹھائے پھرنا کسے پسند نہیں ہوتا،بس یہی حال فائز کے گھر والوں کا بھی تھا۔مگر جوں جوں فائز بڑا ہوتا گیا،اسکی زیادہ کھانے کی عادت پکی ہوتی چلی گئی۔بھوک کم ہو یا نہ بھی ہو تو اسکو کھانے کی طلب رہتی

مسلمان کا حق

          Print

عائشہ نے بہت بے چینی سے ایک مرتبہ پھر گھڑی کو دیکھا اور نظریں گیٹ پر جما دیں۔ اسکول لگنے میں صرف 5 منٹ ہی رہ گئے تھے اور ابھی تک مومنہ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ اس نے  غصے سے مٹھیاں بھینچیں اور مومنہ کے جلد آنے کی دعا کی لیکن پانچ منٹ بھی گزر گئے اور گھنٹی کی آواز پر وہ مردہ قدموں سے اسمبلی گراونڈ کی طرف چل پڑی۔ اب کیا ہوگا، اس کے ذہن میں بار بار یہی سوال گونج رہا تھا۔

اسمبلی کے دوران بھی خالی الذہن کھڑی رہی، اس کے سامنے کل کا واقعہ گھوم رہا تھا۔

انوکھا حل

          Print

یہ شکو میاں  کا اسکول  میں پہلا  دن تھا ، جب   سے شکو کو پتا چلا تھا  کہ وہ اسکول جانے والے ہیں  وہ سب گھر والوں سے سکول کے بارے میں سوال کر رہے  تھے۔  اب تک  کی شکو میاں کی معلومات کے مطابق اسکول میں بہت سارے کمرے ہوتے ہیں  ۔جسے کلاس کہتے ہیں  کلاس میں ایک ٹیچر  ہوتی ہیں  جو  اچھے بچوں کو چاکلیٹ دیتی ہیں  اور کلاس میں شکو میاں کی طرح اور بھی بچے ہوتے ہیں  اب تو شکو میاں اسکول جانے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔

اخلاق کی خوشبو

          Print

گرمی کی چھٹیاں شروع ہو گئی تھی۔ سارے محلے والوں کو یہی ڈر تھا کہ اب بچوں کی شرارتیں عروج پر ہوں گی۔ مگر چونکا دینے والی بات تو یہ تھی کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اور اسکی ایک ہی وجہ تھی، اور وہ تھا عادل۔

کافی دنوں سے عادل کے مزاج میں کچھ تبدیلیاں نظر آ رہی تھی۔ وہ پہلے کے مقابلے اب کافی بدل چکا تھا۔ وہ بچہ، جو بات بات پر سب سے بدتمیزی کیا کرتا تھا۔ اب آپ جناب کے علاوہ بات نہ کرتا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ، جس بچے کا پڑھائی سے دور

محنت میں عظمت

          Print

سعد باہر لان میں ساتھ والی بوڑھی خالہ سے مشین پکڑ کر زبردستی گھاس کاٹنے لگا کیونکہ بانو خالہ بہت بوڑھی تھیں۔ ان کے شوہر کی وفات ہو چکی تھی اور ایک ہی بیٹا تھا جو کسی دوسرے ملک میں رہتا تھا اس لئے وہ اکیلی ہی رہتی تھیں۔ اتنی بھاری مشین ان سے چل نہیں رہی تھی۔ سعد اکثر کاموں میں انکی مدد کر دیتا۔ آج بھی دیکھا تو زبردستی ان کی مدد کرنے لگا۔

مینو میمنا

          Print

اسد اپنے نانا جان کے گھر رہنے آیا ہوا تھا۔  روز نانا جان سب بچوں کو اپنے کمرے میں بلا کر کہانی سناتے تھے۔ آج بھی اسد اور اس کے تمام کزنز   بڑے کمرے میں جمع تھے۔

’’ہاں تو بچو! میں کہ رہا تھا کہ انسان کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا کام لازمی کرنا چاہیے جو اس کی مرنے کے بعد بھی اسے  نفع پہنچاتا رہے۔ ‘‘

’’نانا جان! ایسا کون سا کام ہو سکتا ہے جس سے مرنے کے بعد بھی ہمیں فائدہ ہو؟‘‘ اسد نے سوچتے ہوئے پوچھا۔

بڑا نفع

          Print

دسمبر کا مہینہ تھا۔اچھی خاصی سردی پڑ رہی تھی۔ مفلر، گرم ٹوپی، گرم کپڑوں میں، ہو ہو ہاہا کی آوازیں نکالتے آتشدان کے سامنے بیٹھے وہ سارے بچے بڑے بهلے لگ رہے تهے۔ ایسے موسم میں بهی وہ پیارے بچے حسین بھائی کا انتظار کررہے تهے۔ عشاء کی نماز ختم ہوئی اور کچھ ہی دیر کے بعد وہ ہال میں آگئے۔ سب نے جلدی سے انهیں سلام کیا۔ وہ جواب دیتے ہوئے بچوں کے قریب جا بیٹھے۔

’’دیکهو بچو! چاند کتنا خوبصورت نظر آرہا ہے اور اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی بهی چاروں طرف پهیلی ہوئی ہے۔ پتہ ہے یہ بهی خدا کی ایک بہت بڑی  نعمت