میرا  مستقبل

          Print

"جی سر !  میں بڑا  ہو کر پائلٹ بنوں گا ، کیوں کہ  میرے بابا پائلٹ ہیں  وہ دنیا بھر میں گھومتے ہیں  ہر جگہ کا وزٹ کرتے ہیں میں  بھی  پوری دنیا  گھومنا  چاہتا ہوں ۔" ابراہیم نے کھڑے  ہو کربڑے جوش  سے  کہا

یہ سر شاہد کا پیریڈ تھا   وہ اپنی عادت  کے مطابق ہمیشہ   تعلیمی سال کے آخر  میں سب کلاس والوں سے پوچھتے  تھے کہ ہر طالب علم  اپنااپنا شوق بتائے  کہ بڑے ہو کر وہ کیا  بنے گا  تاکہ  اس سلسلے میں طلباء کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔

 

اس کے بعد سر شاہد نے نعمان سے پوچھا : " آپ نے کیا سوچا ہے اپنے مستقبل کے بارے میں ؟"  نعمان  نے بڑے  پر عزم انداز میں کہا : " میں بڑے  ہو کر ڈاکٹر بنوں گا  کیوں کہ ڈاکٹر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں  بیماروں کا علاج کرتے ہیں  ،ان شاء الله میں بھی خدمت خلق میں آگے بڑھوں گا ۔"

سب  کلاس والوں نے  نعمان کے لئے  زوردار تالیاں  بجائیں  پھر حسان  نے کہا سر ،سر میں بتاؤں  ؟ جی بالکل ! اپنی باری کا انتظار کریں سب سے پوچھوں گا  سر شاہد نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

  پھر وہ  عمر  سے مخاطب ہوے  جو مسلسل  خاموش  بیٹھا  تھا۔ 

عمر بیٹا  :" کیا آپ نہیں بتائیں گے  کہ مستقبل میں کیا بننا  چاہتے  ہیں  ؟"   کیوں  نہیں  سر  میں اپنی باری کا انتظار  کر  رہا  تھا  ۔" عمر نے ادب سے  کہا  میں  بڑے ہو کر جو بننا  چاہتا  ہوں  میری کوشش  ہے کہ میں ا بھی سے  ویسا  بن جاؤں  کیوں کہ مجھے جلیل القدر صحابی  خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب (رضی الله  عنہ )ایسا  بننا  ہے۔

  سر  نے عمر سے پوچھا : " کیا آپ اس کی وجہ بتائیں  گے  کہ آپ کو  حضرت عمر رضی  الله عنہ  جیسا  بننے کا شوق  کیسے  ہوا ۔؟ 

"میری امی مجھے صحابہ  کرام رضی الله عنہم اجمعین  کے قصے سناتی ہیں میرے والدین نے میرا نام عمر رکھا  ہے  اس وجہ  سے  میرا شوق  ہے  کہ میرا  کردار  بھی حضرت  عمر رضی اللہ عنہ  جیسا  ہو" عمر  نے پورے اعتماد سے  جواب  دیا۔

"اچھا تو ہمیں  بھی  حضرت عمر رضی الله عنہ   کے بارے میں کچھ بتا دیں  ہم ان کے بارے میں جاننا چاہتے  ہیں ۔" یہ آواز نعمان کی تھی۔

عمر  بولا :" ٹھیک ہے  ضرور سنیے!  حضرت عمر رضی الله عنہ  وہ  صحابی  ہیں  جن کے مسلمان ہونے کی دعا  خود  حضور  صل الله  علیہ  وسلم نے فرمائی تھی ،  بڑے جلیل القدر  اور بہادر صحابی  تھے ۔کفار مشرکین پر ان کا  بڑا رعب تھا  اور جہاں سے عمر  رضی الله عنہ گزرتے  شیطان بھی اس راستے سے بھاگ جاتا  ۔ان کی فضیلت کے بارے میں  پیارے  نبی صل الله علیہ  وسلم نے فرمایا :

لو كان بعدى نبى  لكان  عمر بن الخطاب)رواه  الترمذي (

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر  ہوتا  (لیکن میں آخری نبی  ہوں )

حضرت عمر رضی الله  عنہ دوسرےخلیفہ تھے۔ نبوت  کے چھٹے  سال مسلمان ہوئے  ۔دس سالہ دور حکومت میں  الله  کے احکام  کے نفاذ  اورا  علاء کلمتہ الله  میں نڈر اور بے باک تھے  ۔انصاف اور عدل کی مثال تھے کہ ان کے دور حکومت میں  کوئی جانور بھی بھوکا نہیں مرا۔ میں ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہتا  ہوں ۔" 

سر شاہد نے  عمر کے کندھے پر  مشفقانہ  تھپکی دی اور کہا : " آپ کے ارادے  قابل قدر  ہیں دعا ہے  کہ  الله  ہم  سب کو  صحابہ  کرام رضی الله عنہ  کے نقش قدم پر چلتے  ہوئے دین کی خدمت کرنے والا بناۓ سب کلاس والوں نے آمین کہا  اس کے ساتھ  ہی گھنٹی کی آواز  آئی  اور   کلاس  کا وقت ختم ہوگیا ۔


{rsform 7}