’’ارے وہی جو تم نے اتوار والے روز بھیجی تھی۔ لو بھئی! عبدو کی ماں ہو ناں۔ بھول گئی ہو تم بھی۔‘‘ خالہ جان نے امی سے کہا اور مسکراتے ہوئے نانی جان کے پاس بیٹھ گئیں۔

امی نے عبدو کو دیکھا۔ وہ سمجھ چکی تھیں ضرور عبدو نے گڑ بڑ کی ہے۔

’’جلدی بتاؤ! سوجی کا حلوہ کہاں گیا؟‘‘ امی جان ڈنڈا لیے سر پر آن کھڑی ہوئی تھیں۔ نانی جان سنبھلتے ہوئے تخت سے نیچے اتریں اور عبدو کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔


’’ائے ہئے! رہنے بھی دو۔ کھا لیا ہو گا۔ اتنے مزے کا بناتی ہو تم ۔ بچے کا دل مچل ہو گیا ہو۔ بس چھوڑو۔ رات گئی بات گئی۔‘‘

ہاہ!! آج نانی جان نہ ہوتیں تو مار پکی تھی۔ عبدو نے بستر پر لیٹتے ہوئے دل میں کہا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن امی جان نے پھپھو کے گھر جانا تھا۔ وہ بیمار تھیں اور انہوں نےفون کر کے امی کو اپنی مدد کے لیے بلایا تھا۔ پھپھو کا گھر دور تھا۔ اس لیے امی جان نے میٹھے توس اور آلو والے پراٹھےبنائے۔ پانی کی ٹھنڈی بوتل باسکٹ میں رکھی اور گھر سے نکل آئیں۔

’’عبدو! گھر کے گیٹ کو باہر سے تالہ لگا دو ۔‘‘

عبدو نے جلدی میں چابی فرش پر پھینکی اور تالہ لگا دیا۔ پھر اس نے جھک کر چابی اٹھانا چاہی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے دروازے کے نیچے چلی گئی۔ عبدو نے انگلی سے چابی کو نکالنا چاہالیکن وہ مزید آگے چلی گئی۔

ادھر امی گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں ۔ جب گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو عبدو میاں سب کچھ بھول بھال کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھپھو کے گھر بہت مزہ آیا۔ امی جان تو کام میں لگی رہیں۔ پہلے انہوں نے صفائی ستھرائی کی پھر کچھ کھانے پکا کر فریز کر دیے ۔ عبدو سارا دن راشد کے ساتھ کھیلتا رہا۔

’’چلو عبدو گھر چلیں۔‘‘

امی جان نے کہا اور پھپھو کو خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکل پڑیں۔ ایک لمبے سفر کے بعد جب وہ اپنے گھر پہنچے تو امی نے عبدو سے دروازہ کھولنے کو کہا۔

گھر کا دروازہ دیکھتے ہی عبدو کو صبح والا واقعہ یاد آچکا تھا۔

’’وہ ۔۔ امی جان! چابی تو۔۔ اندر گر گئی تھی۔ میں نے نکالنے کی کوشش کی لیکن نہیں نکل سکی۔‘‘

’’میرے خدایا! عبدو! تم سے کوئی کام ٹھیک سے نہیں ہوتا۔ یہ لو اور دروازہ کھولو۔ ‘‘ امی نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور پرس سے دوسری چابی نکال کر عبدو کو دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن عبدو بہت اداس تھا۔ آج پھر امی سے ڈانٹ پڑ گئی تھی۔ نانی جان آئیں تو عبدو دوڑ کر ان سے لپٹ گیا۔

’’نانی جان! جلدی سے وہ والا گُر بتائیں جس سے سارے کام ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‘‘

نانی جان ہنسنے لگیں اور عبدو کو پیار کرنے لگیں۔

پھر انہوں نے پرس سے میٹھی گولیاں نکال کر عبدو کو دیں اور کہنے لگیں۔

’’میرے بیٹے! جب بھی کوئی کام کرنے لگو تو بسم اللہ پڑھ لو۔ اس سے اللہ کی مدد ساتھ ہو جاتی ہے اور شیطان ہمیں کچھ بھولنے نہیں دیتا۔ ‘‘

جب عبدو نے یہ سنا تو خوشی سے اچھل پڑا۔ اتنا آسان گر تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔