فاتی اور بلوّ کی دادی جان گاؤں سے آئی ہوئی تھیں۔ دادا ابو ہاسپٹل میں داخل تھے۔ اصل میں انہوں نے گاؤں میں ایک اناڑی حکیم سے دوا لے لی تھی جس کی وجہ سے ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔ ابو جان نے اطلاع ملتے ہی فوراً ان کو بڑے ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ ابھی بھی وہ ان کی تیمارداری کے لیے ہسپتال میں ہی تھے۔
رات ہو چلی تھی لیکن نیند کس کو آتی۔ صبح ویسے بھی اتوار کا دن تھا۔ امی جان نے بھی فاتی اور بلوّ کو سونے کے لیے نہیں کہا۔ وہ دادی جان سے باتیں کر رہی تھیں۔
’’امی! نیم حکیم خطرہ ٔ جان ہوتا ہے۔ وہ تو شکر ہے کریم انکل نے ہمیں فون کر دیا ورنہ نہ جانے کیا ہو جاتا۔‘‘ امی جان نے دادی جان سے کہا۔
بلوّ کو سمجھ نہ آئی ۔ وہ یکدم بول اٹھا۔
’’امی جان! نیم حکیم خطرۂ جان کا مطلب کیا ہے؟‘‘ پہلے تو امی جان نے اسے بات کاٹنے پر گھور کر دیکھا۔ پھر دادی جان سے کہنے لگیں۔ ’’لیں امی جان! آپ ان کوکہانی سنائیں ۔ میں آپ کے لیے قہوہ بنا کر لاتی ہوں۔ ‘‘
دادی جان کہنے لگیں۔’’یہاں آؤ میرے بچو! یہ دراصل ایک کہاوت ہے۔ جس کے پیچھے ایک لمبی ی ی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ ‘‘ دادی جان نے لمبی کو مزید لمبا کرتے ہوئے کہا تو فاتی اور بلوّ کے چہرے کھِل گئے۔
’’تو سنائیں ناں! دادی جان! پلیز!‘‘ یہ کہتے ہوئے دونوں نے دادی جان کے پاؤں نہایت جوش و خروش سے دبانا شروع کر دیے۔دادی جان ہنس پڑیں۔ پھر کہنے لگیں۔
’’کسی دور دراز علاقے ميں ايك تاجر كپڑے كا كاروبار كرتا تھا ۔ وہ دور دراز كے شہروں ميں جا كر اپنا كپڑا بيچتا اور واپسی پر طرح طرح كی نئی چيزيں خريد لاتا جنہيں وہ اپنے شہر ميں فروخت كر ديتا۔ اس طرح اسے دور دراز كے علاقوں ميں بھی جانا پڑتا۔
ايك بار وہ كسی علاقے ميں مال فرخت کرنے گيا۔ اس نے ايك درخت كے ساتھ اپنا اونٹ باندھا اور اس كے آگے خربوزے ڈال ديے اور خود بھی چھاؤں ميں بيٹھ كر كھانا كھانے لگا۔ اچانك اونٹ كے گلے سے عجيب و غريب گھٹی گھٹی سی آوازيں نكلنے لگيں۔ اونٹ كے گلے ميں خربوزہ پھنس گيا تھا۔ تاجر نے ديكھا تو رو رو كر دہائی دينے لگا كہ "ميرے اونٹ كو بچا لو۔"
لوگ دوڑے اور ايك سيانے حکیم صاحب كو لے آئے۔ حکیم صاحب نے جلدی سے اونٹ كو زمين پر لٹايا اور ايك اينٹ اس كی گردن كے نيچے ركھي اور دوسري اينٹ اس کی گردن كے اوپر آہستگي سے ماري، جس سے خربوزہ ٹوٹ گيا اور اونٹ بالكل ٹھيك ہو گيا۔
اگلے سال شديد بارشيں ہوئيں۔ تاجر كو اپنے شہر سے نكلنا دشوار ہو گيا۔ جو اس كے پاس جمع پونجی تھی وہ خرچ ہو گئی۔ اپنے شہر ميں اس كا كوئی كاروبار تھا ، نہ اس كے پاس کوئی ہنر تھا۔
بہت سوچ بچار كے بعد اس نے حکیم بننے كا فيصلہ کیا۔ اس نے ايك دكان بنا لي، چند جڑي بوٹياں ركھ ليں اور لگا لوگوں كو اوٹ پٹانگ دوائيں دينے۔
انہی دنوں شہر كے حاكم كا والد بيمار ہو گيا۔ اسے گلہڑ كا مرض لاحق ہو گيا تھا۔میرے بچو! گلہڑ ايك ايسا مرض ہے كہ جس كو لگ جائے اس شخص كا گلا بہت زيادہ پھول جاتا ہے، آج كل اس بيماري سے بچنے كے ليے آئيوڈين ملا نمك بہت مفيد ہے۔
بہرحال اس وقت گلہڑ كا مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ لہٰذا حاكم شہر نے شہر ميں ڈھنڈورا پٹوا ديا كہ جو کوئی حاكم شہر كے والد كا كامياب علاج كرے گا اس كو بھاری انعام ديا جائے گا۔
جب نيم حکیم يعنی اسی تاجر نے يہ اعلان سنا تو اسے اپنے اونٹ كے ساتھ پيش آنے والا پچھلے برس كا واقعہ ياد آ گيا۔ اس نے اعلان كر ديا كہ وہ حاكم شہر كے والد كا علاج كرے گا۔ لوگ حيران رہ گئے كہ پورے شہر ميں صرف اسی كے پاس يہ علاج تھا۔ آخر وہ حاكم شہر كے گھر حاضر ہوا۔ وہاں اور بھي لوگ اكٹھے تھے۔ نيم حکیم نے حاكم شہر كے والد كو لٹايا۔
ايك اينٹ اس کی گردن كے نيچے ركھی اور دوسري اينٹ اوپر سے دے ماري۔
بس پھر کیا تھا، بابا جی اللہ كو پيارے ہو گئے۔ مجمع ميں سے كسی نے بلند آواز سے كہا: "نيم حکیم خطرہ جان۔"
اس كے بعد نيم حکیم كے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر يہ كہاوت مشہور ہو گئی۔ اب جب بھی کوئی اناڑی کوئی مہارت كا كام كرنے لگے تو يہی كہاوت كہی جاتی ہے۔ چلو بچو! بہت رات ہو گئی۔ اب سو جاؤ۔ صبح آپ نے دادا بو کو دیکھنے ہسپتال بھی جانا ہے۔ ‘‘ دادی جان نے قہوہ کا خالی کپ رکھتے ہوئے کہا تو فاتی اور بلوّ دادی جان کو شب بخیر کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔