’’ بچو! کیا آپ سب تیار ہو ؟‘‘دادا جان نے کمرے میں آ کر پوچھا ۔
’’جی بالکل ہم تو پارک جانے کے لئے بے تاب ہو رہے ہیں ۔‘‘ داؤد نے جوشیلے انداز میں کہا۔
’’کب جائیں گے؟ ‘‘ ایان آہستہ سے بولا ۔
اسی دوران باہر سےہارن کی آواز آئی ۔چاچو پٹرول فل کرواکے واپس آئے تھے ۔
صفیان نے بیگ پہن کر پوچھا۔’’دادا جان گاڑی آ گئی ہم جا کر بیٹھ جائیں ؟‘‘
ابھی آپ سب کو تھوڑی دیر صبر کرنا ہوگا ۔ پہلے ہم گاڑی میں ساراضروری سامان رکھ دیں۔ ‘‘
ابراھیم نے کھڑے ہوکر کہا۔’’ ہم بھی آپ کے ساتھ مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ جلدی سے سارا کام ہو جائے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے پیارے بچو!‘‘ دادا جان بولے۔
گاڑی میں بیٹھ کر سب بچوں نے سفر کی دعا پڑھی تو دادا جان نے سب کو شاباش دی۔اچانک سفیان نے فکر مند ہو کر پوچھا ۔’’اب راستہ کتنا باقی ہے ؟‘‘
سب کو بے ساختہ ہنسی آ گئی۔
’’ یہ کیا ابھی تو ہم نے دعا پڑھی ہیں اور گاڑی چلنے لگی ہے اورپہنچنے کا پوچھ رہے ہو ۔تھوڑا صبر کر لو ۔‘‘ کافی دیر خاموش بیٹھے داؤد نے جھلا کر کہا ۔
ایان نے دونوں کو گھورتے ہوئے کہا ۔’’بس اب ایک دوسرے کو تنگ کرنا چھوڑ دو ۔چلو ایک گیم کھیلتے ہیں اس طرح ہمارا سفر جلد طے ہو جائے گا ۔ہم انجوائے بھی کرلیں گے ۔‘‘
’’زبردست آئیڈیا !‘‘ ابراہیم نے داد دی ۔
’’ٹھیک ہے اب بتاؤ کونسا گیم ہے اور کیسا گیم کھیلنا ہے؟‘‘سفیان نے پوچھا ۔
ایان نے کہا۔’’ اس گیم کا سٹارٹ ابھی ہوگا اور اینڈ بھی گاڑی میں ہوگا ۔پھر دادا جان جیتنے والے کو انعام دینگے۔ ‘‘
دادا جان سب کی باتیں سن رہے تھے۔’’ اچھا جی میرے بچو! مجھے بھی اس گیم میں شامل کر رہے ہو۔ مجھے اس سے خوشی ہو گی ۔‘‘
پھر ایان نے بتایا۔’’گیم یہ ہے کہ ہم پلے گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلیں گے ۔گارڈن ایریا میں واک کریں گے ۔ہرے بھرے پھولوں کا خیال رکھیں گے۔ انہیں توڑیں گے نہیں۔ کھانا کھا کر برتنوں کو واپس سے شاپر میں ڈالیں گے اور پارک میں کچرا نہیں پھینکیں گے۔ اگر کچھ بوٹیاں وغیرہ رہ جائے تو ایک طرف بلیوں کے لیے رکھ دیں گے تاکہ وہ بھی پیٹ بھر سکے ۔جھولوں میں دوستوں کے ساتھ نمبروار جھولنا ہے۔ اور سب سے ضروری بات کہ سب کو مل کر رہنا ہے تاکہ کوئی گم نہ ہوجائے۔ لیکن اگر کوئی گم بھی گیا تو کسی اجنبی کے پاس ہرگز نہیں جانا بلکہ سیدھے پارک کے سیکورٹی مین کے پاس جاکر اپنا اور ابو کا نام بتانا ہے تاکہ وہ اعلان کرکے ہمیں ملوالیں۔ ‘‘
ایان نے سارا اصول بتا کر ہی سانس لیا۔
’’ اب جو بھی ان پرعمل کرے گا اور غلطی نہیں کی تو دادا جان اس کو گفٹ بھی دیں گے۔ ہیں ناں دادا جان!‘‘
ایان نے پوچھا اور دادا جان مسکرانے لگے۔
’’جی کیوں نہیں بیٹا! انشاء اللہ!‘‘
اچانک سفیان اچھل کر بولا۔’’یہ تو واقعی میں اپنے سامنے اپنا پسندیدہ پارک دیکھ رہا ہوں! اتنی جلدی پہنچ گئے ہم!‘‘
’’چلو بچو اپنا اپنا بیگ اٹھا لو ہم جلد اترنے والے ہیں۔‘‘ دادا جان نے مخاطب ہوکر کہا۔ ٹکٹ لے کر سب نے پارک کی طرف دوڑ لگائی۔ پھر کار میں بیٹھ کر ریس لگائی کیونکہ یہ چاروں کا پسندیدہ رائیڈر ہے۔ اسکے بعد پلے ایرا میں فٹبال کھیل رہے تھے تو ابراھیم نے زور سے شارٹ مارا تو وہاں بچے کو لگ گئی۔ ابراھیم دوڑ کر اسکے پاس گیا اور اس سے معذرت چاہی۔
اس کے بعد سب نے مل کر مزیدار کھانا کھایا ۔پھر سارے ڈیسپوزیبل برتن کو شاپر میں ڈالتے ہوئے ایان ٹوکری کی طرف گیا۔ وہیں پاس ایک فیملی کو دیکھا جس کے اردگرد بہت سارے ریپر اور کچرا بکھرا ہوا تھا۔ ایان ان کے پاس جاکر خوب سارا کچرا اٹھانے لگا تو دو بچوں نے بھی آ کر اس کا ساتھ دیا۔ اس طرح وہ صاف ستھرا جگہ میں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے ۔
ابراہیم نے پلیٹ میں چاول ڈال کر اور گلاس میں پانی لے کر گارڈ کو دیے ۔گارڈ نے ابراہیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیر ساری دعائیں دیں ۔صفیان اور اور داؤد نے کھیلتے کھیلتے ایک بچے کو پارک میں روتے ہوئے اکیلے بیٹھے دیکھا تو اسے سیکورٹی مین کے پاس لے کر گئے ۔ وہیں پر اس کے امی ابو کھڑے اعلان کا کہہ رہے تھے۔
اپنے بچے دیکھا تو پیار کرتے ہوئے سفیان اور داؤد کا بہت شکریہ ادا کیا ۔ اتنے میں نے دادا جان ،ایان اور ابراہیم کو سامان سمیٹ کر گیٹ کی طرف آتے دیکھا تو وہیں رک گے۔ سفیان کو آج کے ونربننے پر پورا یقین تھا کیونکہ اس نے کوئی غلطی نہیں کی تھی ۔ وہ پراعتماد ہوکر کہنے لگا کہ آج کا ونر تو میں ہوں اسی لیے انعام بھی مجھے ملے گا ۔داود نے جل کر کہا :بالکل نہیں آج کا ونر میں ہوں ۔
ابراہیم نے قریب آکر کہا میرے بھائیو! ابھی بھی گیم کا وقت باقی ہے۔اینڈ گاڑی میں ہوگا اور تم دونوں یہاں لڑو گے تم ونر دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بنے گا ۔‘‘ صفیان نے ڈانٹ کر کہا اور گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا ۔
گاڑی سٹارٹ ہوئی تو ایان نے وینر کانام بتانے کے لیے دادا جان سے کہا ۔
’’میرے پیارے بچو !میں بالکل نہیں بھولا آج میں نے بھی سب کے ساتھ پارک میں بہت انجوائے کیا ۔کیونکہ اپ سب نے مجھے تنگ نہیں کیا ہے ۔اور سب نے بہت اچھا مظاہرہ کیا ہیں اسی لیے آج کے ونر میرے چاروں بچے ہیں ۔تو میں آپ چاروں کو گھر جاکر انعام بھی دوں گا ۔‘‘
سب نے مل کر دادا جان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ۔ ’’دادا جان! آپ بہت اچھے ہیں۔ یہ سب اچھے کام آپ ہی نے ہمیں سکھائے ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے بچو !ہم اپنے کپڑے ،سامان اورگھرجس طرح صاف ستھرا رکھتے ہیں اسی طرح ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے باغ،پارک کا بھی خیال رکھیں اور صفائی کا خوب اہتمام کریں۔