امجد کی نگاہ اک گاڑی پہ پڑی جو چند لمحے پہلے ہی سنگل پہ آکر رکی تھی۔ گاڑی کے فرنٹ شیشے پہ کسی پرندے نےاپنا کام کر دکھایا تھا۔ وہ بڑی پھرتی سے گاڑی کی جانب لپکا۔
مبادا کوئی اور بچہ پہلے پہنچ جائے اور اسکے ہاتھ سے کام لے لے۔
اس نے وائپر ایک ہاتھ میں پکڑا اور دوسرے میں سرف میں دبویا ہوا اسپنج اور لگا شیشہ صاف کرنے۔
’’اے لڑکے! کس نے کہا تم سے صاف کرنے کو؟‘‘
زبیر صاحب کی کڑک دار آواز سہم کے رہ گیا۔
’’پتہ نہیں کہاں سے چلے آتے ہیں۔ اپنا پیشہ بنالیا ہے مسکین شکل بناکے ذرا سا ہاتھ چلاکے پیسے بٹورنے کا!"
زبیر صاحب کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔وہ مسلسل بڑبڑا رہے تھے۔
امجد کو لگا کوئی اس کے دل کو کاٹ رہا ہے۔اس کو کام شروع کیے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ اتنے تلخ الفاظ اس نے پہلی بار سنے تھے۔
’’صاحب جی آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں محنت مزدوری کرکے عزت کی روٹی کماتا ہوں۔ ‘‘
وہ تھوڑی دیر رکا اورگال پہ آئے آنسو پونچھے۔
زبیر صاحب کو اس کے بہتے آنسو دیکھ کر کچھ ہوا لیکن نظر انداز کرتے ہوئے گویا ہوئے۔
’’اچھا اچھا اپنا راگ الاپنا بند کرو ۔۔۔ اور یہ لو پیسے۔۔۔اور ہاں ! سارے رکھ لو۔‘‘
’’صاب یہ زیادہ ہیں میری تو بس اتنی مزدوری بنتی ہے۔‘‘
امجد ایمانداری سے اپنی مزدوری لیکر بقیہ رقم واپس کرچکا تھا۔
زبیر صاحب حیرت سے روپے تھامے اسے تک رہے تھے۔
بیگم کے جھنجھوڑنے سے ان کا تخیل ٹوٹا۔
"بھئی کہاں گم ہوگئے۔ جلدی کیجئے ہمیں دیر ہورہی ہے۔مسز منور کی کالز بھی آنے شروع ہوگئی ہیں۔یہ تو یہاں کے ہر بچے کی کہانی ہے ۔ان کا کام ہے بس ایسی کہانیاں سنا کے روپے بٹورنا۔۔۔اب آپ اس واقعے کو جانے دیجئے۔۔۔اور ڈنر پہ پہنچنے کی جلدی کیجئے۔۔۔"!!
مسز زبیر مسلسل زبیر صاحب کی سست روی سے ہلکان ہورہی تھیں۔
زبیر صاحب نے گاڑی اسٹارٹ کی اور تیز رفتار سے چلانا شروع کردی۔سارے راستے انھیں امجد کا آنسو سے بھیگا چہرہ اور اسکی باتیں نہ بھول پائیں۔
رات گئے بستر پہ آرام کے لیے لیٹے تو بے چینی سی ہونے لگی۔اک پل چین نہیں مل رہاتھا۔بے سکونی تھی کہ کم ہونےکا نام نہیں لے رہا تھی۔ بار بار یہ احساس ستا یا جارہا تھا کہ انھوں نے امجد کے ساتھ کچھ غلط کیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج طلوع ہوتے ہی انھوں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور اسی جگہ پہنچ گئے جہاں کل ا س سے ملا قات ہوئی تھی۔ کچھ دیر کے انتظار کے بعد انھیں امجد نظر آتا دکھائی دیا ۔ آج بھی حسب ِ معمول اس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل اور شیشہ صاف کرنے والا وائپ تھا۔
زبیر صاحب کو دیکھ کر وہ اگلی گاڑی کی جانب بڑھنے لگا۔
’’امجد بیٹا! رکو!‘‘
بیٹا! اسے تو کبھی کسی نے اس طرح نہیں پکارا تھا۔ حیرت سے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو زبیر صاحب نے گاڑی ایک سائیڈ پر لگا دی تھی اور اسے اشارے سے بلا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ امجد کو گاڑی میں بٹھائے شہر کی پچھلی جانب کچھ بستی کی طرف رواں دواں تھے۔ راستے بھر وہ امجد سے باتیں کرتے گئے۔ امجد کی ماں اور دو چھوٹی بہنیں تھیں۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ امجد کی پڑھائی ادھوری رہ گئی تھی ۔ صبح کے وقت وہ گاڑیوں کے شیشے صاف کرتا اور شام کو ایک پٹرول پمپ پر نوکری کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیگم زبیر کو کھانے پکانے والی اک خاتون کی ضرورت تھی۔سو امجد کی والدہ کو یہ کام سونپ دیاگیا۔ان کو سرونٹ کوارٹر میں رہائش دی گئی۔ امجد کی بہنیں قریبی سکول میں جانے لگیں۔ امجد بھی صبح سکول جاتا اور شام کو مالی کاہاتھ بٹاتا تھا۔ امجد کو یقین نہیں آتا تھا کہ کوئی اتنا اچھا سلوک بھی کر سکتا ہے۔ اس نے تو جب سے ہوش سنبھالا تھا اردگرد لوگوں کی جھڑکیاں ہی سنی تھیں۔ سچ ہے کہ دنیا ابھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کو زبیر صاحب کا یہ نیک عمل اتنا پسند آیا کہ آج وہ ایک کی بجائے تین فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ضرورتمند بچوں اور نوجوانوں کے لیے ایک ادارہ بھی کھول رکھا ہے جہاں مختلف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ ہر بچہ بڑا ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی اس ادارے کا مینجر امجد ہے۔ وہی امجد جو کئی سال پہلے گھر سے اسپنچ، وائپر اور پانی کی بوتل لے کر نکلا تھا!
ضرورت مند کی مدد کرنا اپنی استطاعت کے مطابق بلاشبہ بڑی نیکی کا کام ہے۔اکثر ہم فضول خرچی میں بہت سی رقم ضائع کر دیتے ہیں۔اگر ہم اپنے اخراجات سے کچھ رقم ایسے ضرورت مندوں کیلئے مختص کر دیں تو کتنا بھلا ہوجائے۔
رب بھی خوش ہوگا آقا صلی اللہ علیہ وسلم بھی خوش ہوں گےاور اللہ کا تو وعدہ ہے جو اسکی راہ میں خرچ کرے گا وہ اسے دس گنا بڑھا کر نوازے گا۔
اس لیے اپنے آس پاس نظر رکھنی چاہیئے کہ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں سورہا؟ کسی کو مدد کی ضرورت تو نہیں۔ یقین جانیے دوسروں کی مدد کرکے جو خوشی اور روح کو تسکین حا صل ہوتی ہے وہ ناقابل یقین ہے ۔ مجھے یقین ہے آپ سب میری بات سے متفق ہوں گے۔