اس کے لیے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہیں تھی کہ اب وہ اپنے ہی گھر میں دادی اماں سے نہیں مل سکے گا، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس پر دادی اماں سے ملاقات پر پابندی کیوں عائد کردی گئی تھی۔
اگر اب میں نے تمہیں اماں کے ساتھ دیکھا تو اچھا نہیں ہوگا۔
امی کے ان الفاظ نے حارث کو اداس کردیا تھا، اس نے نم آنکھوں سے ابو کی طرف دیکھا لیکن ان کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ وہ بھی اس فیصلے میں شامل ہیں یا شاید انہیں اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔ حارث بہت ہونہار، ذہن اور فرمانبردار بچہ اور ساتویں جماعت کا طالب علم تھا، پڑھائی اور کھیل سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے دادی اماں سے مزیدار کہانی سننا گویا اس کے روزمرہ کا معمول تھا، وہ اپنی دادی سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ بھی اسے بہت چاہتی تھیں۔
اس کے لیے خوبصورت کھلونے لانے کے علاوہ وہ اسے بہت اچھی اچھی کہانیاں سناتی تھیں، ہو کچھ عرصے سے بیمار تھیں، مسلسل کھانسی اور بیماری نے انہیں بہت کمزور کردیا تھا لیکن آج اسکول سے آنے کے بعد جب اسے پتا چلا کہ امی نے دادی اماں کا کمرہ خالی کروا کر انہیں گھر کے پچھلے حصے میں موجود کوارٹر منتقل کردیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا اور پھر امی کا غصے والے انداز میں حارث کو دادی اماں سے نہ ملنے کا حکم دینا اس کے ننھے سے ذہن اور سمجھ سے بالا تر تھا۔
بیٹا امی بیمار ہیں نا، انہیں ٹی بی ہے.... انہیں آرام کی ضرورت ہے اس لیے ان کا کمرہ بدل دیا گیا ہے۔
امی نے کچن میں جانے کے بعد ابو نے اسے اپنے پاس بلا کر پیار سے سمجھایا تھا۔
لیکن ابو! حارث کی آواز بھرا گئی تھی۔ کیا گھر کے کسی اور کمرے میں ان کے لیے جگہ نہیں تھی۔
پھر اس سے پہلے کہ ابو سے جواب ملتا، امی نے دونوں کو کھانے کے لیے بلالیا، کھانے کے دوران بھی وہ یہی سوچتا رہا کہ ٹی بی کون سی بیماری ہے، دوسرے دن اسکول میں اسے پتا چلا کہ کوئی غیر سرکاری تنظیم اسکول کے دورے پر ہے جو بچوں کو ٹی بی کے حوالے سے آگاہی دے رہی ہے، حارث ایک روز پہلے ہی ابو سے اس کا نام سن چکا تھا لہٰذا اسے بے چینی ہونے لگی کہ وہ اس بیماری کے بارے میں جان سکے۔ یہ ٹی بی کون سی بیماری ہے۔ حارث نے اپنے کلاس فیلو سجاد سے پوچھا لیکن اسے بھی اس کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، بریک کے بعد ان کی کلاس میں اس تنظیم کے چار لوگ آئے جن میں سے دو ڈاکٹرز تھے۔
بچو! یہ ڈاکٹر صدیقی اور ان کے ساتھی ہیں جو آپ کو ٹی بی کی بیماری کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں۔
کلاس ٹیچر سر عزیز نے تعارف کرایا اور حارث سمیت سارے ہی بچے غور سے سننے لگے۔
پیارے بچو! ٹی بی دراصل ایک متعدی بیماری ہے، کیا آپ میں سے کسی کو پتا ہے متعدی بیماری کون سی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صدیق نے سوال کیا۔ دو چار بچوں نے ہاتھ کھڑا کیا لیکن ان کے جواب درست نہیں تھے۔
اچھا میں بتاتا ہوں، ڈاکٹر صدیق نے مسکراتے ہوئے کہا۔
متعدی بیماری وہ ہوتی ہے جو جراثیم کے ذریعے دوسرے لوگوں تک منتقل ہوتی ہے، ٹی بی بھی ایک متعدی بیماری ہے اور اس کے جراثیم سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور عموماً پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں۔
اس دوران ڈاکٹر صدیق کے ساتھیوں میں سے دو نے چارٹس نکال کر ہاتھوں میں پکڑ لیے جس پرٹی بی کی علامات اوراحتیاطی تدابیر کے حوالے سے تصاویر بنی تھیں، سارے بچے دلچسپی سے ڈاکٹر صدیق کی باتیں سن رہے تھے، لیکن سب سے زیادہ دھیان سے حارث سن رہا تھا۔ پیارے بچو! ڈاکٹر صدیق نے دوبارہ کہنا شروع کیا۔ ٹی بی کی علامات میں تین یاتین سے زیادہ ہفتوں سے مسلسل کھانسی سب سے اہم علامت ہے، یہ مرض ٹی بی کے مریض کے کھانسنے، چھینکنے یا تھوکنے سے پھیلتا ہے لیکن عام میل جول اور ایک ساتھ کھانے پینے سے، مریض کا بستر یا کپڑے استعمال کرنے سے نہیں پھیلتی۔
حارث کا ذہن تیزی سے ساری تفصیلات یاد کرنے میں مصروف تھا۔
ٹی بی کے علاج کا دورانیہ 8 ماہ ہے، جو دوا تجویز کی جائے اسے باقاعدگی کے ساتھ کھایا جائے تو اس مرض کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر صدیق دوسرے چارٹ کی طرف متوجہ ہوئے جس میں احتیاطی تدابیر درج تھیں۔ ٹی بی کے مریض کو چاہیے کہ کھانستے یا چھینکتے ہوئے منہ کو ڈھانپ لے، جگہ جگہ نہ تھوکے اور مریض کے کمرے کو روش اور ہوا دار رکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر صدیق نے اپنی بات ختم کی اور کلاس ٹیچر سر عزیز سے مخاطب ہوئے۔
عزیز صاحب آپ کے اسکول کے قریب ہی نئی ڈسپنسری قائم ہوئی ہے جہاں اس مرض کے مکمل علاج کی سہولت موجود ہے، چنانچہ آپ بچوں کو سمجھائیں کہ اگر کسی کے گھر میں ایسی بیماری ہو تو اسے ضرور ہم سے رابطہ کرنا چاہیے۔
جی ضرور ڈاکٹر صاحب، سر عزیز پہلے ڈاکٹر صدیق اور پھر بچوں سے مخاطب ہوئے، بچو! یہ ساری باتیں آپ یاد رکھیں اور اگر آپ کے گھر میںخاندان میں یا آس پاس ایسا کوئی مریض ہو تو اسے ڈاکٹر صدیق سے ملنے کا مشورہ دیں۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر صدیق اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چلے گئے لیکن حارث کا ذہن ان کی بتائی ہوئی باتوں کی طرف ہی تھا، گھر واپسی کے بعد اسکول کے کام سے فارغ ہوا تو امی ابو کسی سے ملنے چلے گئے، یہ حارث کے لے سنہری موقع تھا، ملازم بھی اپنے کاموں میں مصروف تھے، چنانچہ حارث چپکے سے گھر کے پچھلے حصے میں واقع کوارٹر میں پہنچ گیا، حارث کو دیکھ کر دادی اماں روپڑیں اور ایسا ہی کچھ حال حارث کابھی تھا،ا اس نے دو دن بعد اپنی دادی اماں کو دیکھا تھا جن کی آنکھیں نیند نہ آنے یا شاید رونے کی وجہ سے سرخ ہورہی تھیں۔
دادی اماں! آپ فکر نہ کریں، میں بہت جلد آپ کو واپس لے جاﺅں گا۔
حارث نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا اور پھر جلدی جلدی ڈاکٹر صدیق کی بتائی ہوئی باتیں اور احتیاطی تدابیر دادی اماں کو بتانے لگا، پھر کونے میں رکھی ٹیبل گھسیٹ کر اس نے روشن دان کے نیچے کی اور اس پر چڑھ کرروشن دان بھی کھول دیا۔
دادی وعدہ کریں آپ ان باتوںپر عمل کریں گی، میں پھر آﺅں گا، حارث نے دادی اماں کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے بیٹا لیکن خیال رکھنا امی کو پتا چلا تو بہت ناراض ہوں گی۔ دادی اماں کے لہجے میں انجانا سا خوف تھا۔
کچھ نہیں ہوگا دادی.... اب میںچلتا ہوں، اپنا خیال رکھنا۔
حارث نے اداس لہجے میں کہا اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں گیا اب اس کے لیے اگلا مرحلہ دادی اماں کے مکمل علاج کا تھا، وہ امی کے غصے سے ڈرتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ ابو بھی امی کے سامنے کچھ نہیں بول سکیں گے چنانچہ اس نے سر عزیز سے بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
تو یہ بات ہے.... ڈاکٹر صدیق نے حارث کی ساری باتیں تفصیل سے سننے کے بعد کہا،وہ پہلے سر عزیز کو ساری بات بتانے کے بعد ان ہی کے ساتھ ڈسپنسری آیا تھا۔
جی ڈاکٹر صاحب، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ دادی کا علاج کیسے کروایا جائے۔ حارث کے لہجے میں اداسی در آئی۔
اس کا حل میرے پاس ہے، ڈاکٹر صدیق نے مسکراتے ہوئے کہا تو حارث کا چہرہ کھل اٹھا۔
کسی بھی شخص کو ٹی بی کا مرض لاحق ہونے کے بعد علاج کے سب سے پہلے مرحلے میں ہم اس کے گھر میں کوئی سپورٹر تلاش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صدیق نے کہنا شروع کیا۔ اس سپورٹر کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ مریض کو وقت پر دوا دے اور کوئی ناغہ نہ ہو تو تمہاری دادی کے لیے ہم تمہیں سپورٹر بناسکتے ہیں۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے ڈاکٹر صاحب اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ کوئی ناغہ نہیں ہوگا۔ حارث نے پرجوش لہجے میں کہا۔
لیکن بیٹا اس بات کا خیال رکھنا کہ یہ دوا تمہیں دادی کو صبح نہار منہ دینا ہوگی اور پہلا ٹیسٹ دو ماہ کے بعد، دوسر اپانچ ماہ اور تیسرا سات ماہ کے بعد ہوگا۔ ڈاکٹر صدیقی نے مزید تفصیل بتائی۔
ٹھیک ہے سر! میں صبح اسکول جانے سے پہلے گھر کے پچھلے دروازے سے اندر جا کر دادی کو دوا کھلا دیا کروں گا اور کسسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ حارث نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ویل ڈن، اگر ایسا ہوگیا تو انشاءاللہ تمہاری دادی بالکل ٹھیک ہوجائیں گی، میں ابھی تمہیں دوا اور اسے کھلانے کا طریقہ بتادیتا ہوں۔ ڈاکٹر صدیق نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر ڈاکٹر صدیق سے طریقہ سمسجھ کر اور دوا لے کر حارث سر عزیز کے ساتھ اسکول آگیا۔
دوسرے روز وہ اپنے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے اٹھا اور تیار ہو کر اسکول جانے کے لیے پندرہ منٹ پہلے نکل آیا، گھر کے دروازے سے نکل کر وہ نظر بچا کر پچھلی گلی میںآگیا، حارث ایک روز پہلے ہی گھر کے پچھلے دروازے کے تالے کی چابی بنواچکا تھا، چنانچہ بڑی آسانی سے وہ دادی اماں کے کوارٹر میں پہنچا اور جلدی جلدی انہیں دوا دے کر طریقہ سمجھایا اور گل دوبارہ آنے کا کہہ کر باہر نکل آیا، اسکول کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اس کے دل میں ایک عجیب سا اطمینان تھا اور پھر اسی روٹین کے ساتھ دو مہینے گزر گئے، اب اسے دادی کو ٹیسٹ کے لیے ڈسپنسری لے کر جانا تھا، ایک روز پہلے ہی اس نے سر عزیز سے بات کی تھی اور اسے بریک کے بعد چھٹی کی اجازت مل گئی تھی چنانچہ بریک کے بعد چپکے سے نکلنے، گھر آنے پچھلے دروازے سے دادی کو باہر نکالنے اور ڈسپنسری سے ٹیسٹ کروانے کے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی، ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آئی تو اس کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہیںتھا، اس کی محنت رنگ لارہی تھی اور پھر ایسے ہی شب و روز کے ساتھ چھ مہینے اور بھی گزر گئے، آخری ٹیسٹ کی رپورٹ حارث کے ہاتھ میں آئی تو اس کے چہرے پر مسرت کے کئی رنگ لہرارہے تھے، اب ایک آخری مرحلہ امی ابو کو یہ خوشخبری سنانے کا تھا کہ دادی اماں اب اس مرض سے نجات پاچکی ہیں، دوسرے روز اس کے اسکول میں سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب منعقد تھی جس میں اس کے والدین نے بھی شریک ہونا تھا چنانچہ حارث نے اس تقریب کے بعد ان سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسکول کے پرنسپل اور سرعزیز کے علاوہ ڈاکٹر صدیق بھی اسٹیج پر بیٹھے تھے، تقریب شروع ہوئی تو بہتری کارکردگی دکھانے والے بچوں میں اسناد تقسیم کی جانے لگیں جس میں حارث بھی شامل تھا، اتنے میں سر عزیز نے اسٹیج پر ڈاکٹر صدیق کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مدعو کیا۔
پیارے بچو! ڈاکٹر صدیق نے بولنا شروع کیا۔ آج کی تقریب میں تعلیمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں بچوں کو اسناد دی گئی ہیں لیکن آج ہمارے پاس ایک ایسا ایوارڈ بھی ہے جو ٹی بی کے خلاف لڑنے والے ایسے بچے کے لے جس نے اپنے ہمت سے ایک مریض کو اس موذی بیماری سے نجات دلائی ہے، سب سے پہلے میں دعوت دوں گا اس مرض میں مبتلا خاتون کو جنہیں ان کے باہمت پوتے نے ٹی بی سے چھٹکارا دلایا۔
اور تالیوں کی گونج میں جب اسٹیج کے پردے کے پیچھے سے حارث کی دادی اماں نمودار ہوئیں تو حارث کے ساتھ ساتھ اس کے امی ابو بھی حیران رہ گئے، حارٹ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب بھی ہوسکتا ہے، دادی اماں آکر اسٹیج پر پرنسپل صاحب کے ساتھ کرسی پر بیٹھ چکی تھیں۔
اور اب میں دعوت دینے جارہا ہوں اس بچے کو جس نے اپنی ہمت سے نہ صرف ٹی بی کو شکست دی بلکہ اپنی دادی اماں کی جان بھی بچائی.... حارث۔ ڈاکٹرصدیقی نے پکارا تو حارث تالیوں کی گونج میں اٹھ کر اسٹیج پر آگیا۔
پیارے بچو! ٹی بی کا مرض قابل نفرت ہے، مریض نہیں۔ ڈاکٹر صدیقی گویا ہوئے اور پھر انہوں نے پوری تفصیل بتائی کہ کس طرح اپنی دادی کے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد حارث نے ان سے رابطہ کیا اور مسلسل آٹھ ماہ تک باقاعدگی کے ساتھ ان کا علاج کیا اور اس مرض کے خلاف لڑتا رہا۔ ہال میں بیٹھے حارث کے امی ابو حیرت اور فخر کے ملے جلے احساسات سے اپنے بیٹے کا کارنامہ سن رہے تھے۔
پیارے بچو! ہم تھوڑی سی محنت، توجہ اور باقاعدہ علاج سے اس مرض کو شکست دے سکتے ہیں اور یہی سب حارث نے اپنی دادی کے لیے کیا ہے اور آج حارث کی دادی اماں اس مرض سے نجات پاچکی ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی نے حارث کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پھر پرنسپل صاحب نے ایک خوب صورت شیلڈ حارث کو دی۔
مجھے معاف کردو بیٹا.... حارث امی ابو اور دادی کے ساتھ گاڑی میں گھر کی طرف روانہ ہوا تو امی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ تمہاری محبت اورتمہیں اس بیماری سے دور رکھنے کے خیال نے مجھے اتنا بے حس کردیا تھا کہ مجھے اماں کا خیال ہی نہیں رہا، لیکن تمہاری محبت تو مجھ سے بھی زیادہ ہے اور تم نے اسی محبت کے زور سے ٹی بی جیسے مہلک مرض کو شکست دے کرمیری آنکھیں کھول دیں.... مجھے معاف کردیجئے اماں! اب آپ ہمارے ساتھ ہی رہیں گی۔ امی نے حارث کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو حارث کو گلے لگاتے ہوئے کہا تو حارث کے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ پھیل گئی۔