’’انعم پلیز ضد مت کرو ۔ جب سے رزلٹ آیا ہے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ تمھیں کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کہ ہمارے خاندان میں لڑکیاں بہت زیادہ نہیں پڑھتیں ۔ تمھیں جتنا پڑھاسکتے تھے پڑھوادیا۔‘‘ امی نے آخر کار جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’مگرامی آپ ایک مرتبہ ابو سے بات کریں تو سہی۔‘‘  انعم کہ رہی تھی۔ اس کے لہجے میں امید  کی کرن تھی۔

 ’’ بیٹا تمھیں تمہارے ابو نے بارھویں جماعت تک پڑھوادیا۔ میرے ابا نے تو مجھے آٹھویں جماعت سے ہی اسکول جانے سے منع کردیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ لڑکیوں کا کام گھر سنبھالنا ہوتا ہے ۔‘‘

 

’’ مگر امی بھیا بھی تو یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں جب ان کو آگے پڑھنے کی اجازت ہے تو پھر مجھ کو کیوں نہیں۔‘‘ انعم ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔
’’ انعم  بیٹا! بہت ہوگئی بحث !اب روٹیاں بھی پک گئیں ہیں۔ تم جا کر دسترخوان لگاؤ۔ تمہارے ابو اور بھیا نماز پڑ ھ کر آتے ہی ہوں گے۔‘‘ امی جان نے حتمی لہجے میں بات ختم کی تو انعم  کمرے میں جا کر دسترخوان لگانے لگی۔ وہ دل ہی دل میں  سب سے بہت خفا تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ امی اور بھیا اس کی ایک نہیں سنتے اور ابو کے غصے کے ڈر سے اس کی یہ بات ابو کے کان تک پہنچانے کا دلا سہ بھی نہیں دیتے تھے۔
بھیا بھی مذاق میں بات اڑا دیتے تھے ۔ ان کو شاید یہ احساس نہ تھا کہ تھا کہ جب کسی کی جائزخواہش پوری نہ ہو اور خواب ادھورے رہ جائیں تو انسان کو کیسا لگتا ہے ۔ انعم نے بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کی خواہش کی تھی ۔ایف ایس سی کی امتحان میں اس کے نمبر بھی بہت اچھے آئے تھے۔ لیکن مسئلہ صرف اجازت کا تھا وہ آرام سے ڈاکٹر بن سکتی تھی مگر انعم کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے حمایت میں نہ تھے۔
لیکن اس پر تو بس ڈاکٹر بننے کا جنون سوار تھا اور اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ ابو سے خود بات کرے اورمیڈیکل کالج میں داخلے  کی اجازت حاصل کرے ۔
اگلے دن رات میں ڈرتے ہوئے انعم ابو کے کمرے میں گئی۔
’’ارے میری بیٹی آئی ہے !آؤ بیٹا کیا بات ہے۔ کچھ پریشان لگ رہی ہو۔‘‘

’’ جی ابا پریشان تو ہوں۔‘‘ ابو کے پیار بھرے لہجے سے انعم کی ہمت بڑھی۔ وہ کوئی سخت گیر باپ نہیں تھے۔ خاص طور پر انعم پر تو جان چھڑکتے تھے لیکن پڑھائی کے معاملے میں ان پر خاندانی روایات کا اثر تھا۔لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو شروع سے خاندان کے بڑے بزرگ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔  

 ’’ کیا ہوا بیٹا!‘‘

’’ ابو جان! آپ سے ایک بات کی اجازت چاہیے ۔ آپ مجھے آگے پڑھنے دیں۔ابو جان! میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں ۔‘‘ انعم نے آخر دل کی بات کہ ہی دی۔

 ’’ بیٹا ہمارے گھرانے میں لڑکیاں زیادہ تعلیم حاصل نہیں کرتی ہیں۔ یہ زیادہ تعلیم لڑکیوں کو آزاد خیال بنا دیتی ہے اور لڑکیوں کا کام بس گھرداری کرنا ہوتا ہے۔ تم کو بیٹا یہ خیال بھی کیسے آیا۔‘‘ ابو نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ابا آپ کو اپنی بیٹی پر بھروسہ نہیں ہے کیا؟ آج تک میں نے آپ سے جو خواہش کی ہے  آپ نے پوری کی ہے۔ ہمیں اتنا اچھا رہن سہن دیا ہے تو آپ مجھے آگے پڑھنے کی اجازت کیوں نہیں دے سکتے ہیں ۔پلیز مجھے اجازت دے دیں۔ ابا قرآن پاک اور احادیث میں کہیں پر بھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ہمارے نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلی وحی یہ ہی نازل ہوئی ’’اقراء‘‘ جس کا مطلب ہے ’’ پڑھو‘‘ اور آپ ثمن باجی کو دیکھیں ان کے شوہر کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تو سارے گھر کی ذمہ داری ان کی دوسرے لوگوں نے اٹھائی۔ اگر چچا جان ان کو تعلیم دلواتے تو وہ اپنے بچوں کا بوجھ خود اٹھا لیتیں ۔کوئی نوکری کرلیتیں۔ اب ان کو اپنے بچوں کی اسکول کی فیس دینے کے لیے بھی دوسروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ابا علم تو ایک خزانہ ہے۔ اس کو تو کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ انعم بنا رکے کہتی چلی گئی۔ نہ جانے اس میں ایک دم اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی۔ابو کسی گہری سوچ میں گم لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ انہیں انعم کی بات بری لگی ہے یا نہیں۔

 ’’ابو جان اگر آپ کو میری کوئی بات بُری لگی تو میں معافی چاہتی ہوں مگر جو میرے دل کا حال ہے میں نے آپ سے کہہ دیا ۔‘‘ یہ کہ کر انعم روتی ہوئی کمرے سے چلی گئی ۔رات بھر وہ سو نہ سکی۔  دعائیں کرتی رہی کہ اللہ پاک کوئی راستہ نکال دے ۔
صبح فجر کی نماز کے بعد ابو جان انعم کے کمرے میں آئے اور بولے۔

’’ انعم بیٹا نماز پڑھ لی ہو تو میرے کمرے میں آؤ ۔تم سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘

جن انعم نماز کا دوپٹہ اچھی طرح لپیٹے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں  امی اور بھیا پہلے سے  موجود تھے ۔

’’انعم بیٹا!  میں تم کو آگے پڑھنے کی اجازت دیتا ہوں ۔تمھاری کل کی باتوں پر میں رات گئے تک سوچتا رہا۔‘‘  ابو مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔

انعم کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے امی اور بھیا کی طرف دیکھا۔ وہ بھی مسکرا رہے تھے۔

’’ تو بیٹا بتاؤ اب میڈیکل کالج کے فارم لینے کب چل رہی ہو۔‘‘  
’’کل ہی ابوجان ! کل ہی چلتے ہیں!‘‘ انعم نے جوش  میں  یکدم کھڑے ہوتے ہوئے کہا تو ابو ، امی اور بھیا سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔