مسلمان کا حق

          Print

عائشہ نے بہت بے چینی سے ایک مرتبہ پھر گھڑی کو دیکھا اور نظریں گیٹ پر جما دیں۔ اسکول لگنے میں صرف 5 منٹ ہی رہ گئے تھے اور ابھی تک مومنہ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ اس نے  غصے سے مٹھیاں بھینچیں اور مومنہ کے جلد آنے کی دعا کی لیکن پانچ منٹ بھی گزر گئے اور گھنٹی کی آواز پر وہ مردہ قدموں سے اسمبلی گراونڈ کی طرف چل پڑی۔ اب کیا ہوگا، اس کے ذہن میں بار بار یہی سوال گونج رہا تھا۔

اسمبلی کے دوران بھی خالی الذہن کھڑی رہی، اس کے سامنے کل کا واقعہ گھوم رہا تھا۔

 

عائشہ۔پلیز مجھے تم سے ایک کام ہے تفریح کے وقفے میں مومنہ نے اس سے کہا تھا۔

’’کس قسم کا کام؟‘‘ وہ مسکرائی۔

’’تمہیں تو پتا ہے پچھلے ہفتے دادا جان کی وفات کی وجہ سے ہمیں گاؤں جانا پڑگیا تھا اس لئے کافی دن اسکول نہیں آ سکی۔ میں چاہ رہی تھی کہ آج تم حساب اور سائنس کی کاپی مجھے دے دو تاکہ میں پچھلا کام اتار سکوں۔‘‘

اور عائشہ نے تھوڑی سی پس و پیش کے بعد جلدی واپس کرنے کی تاکید کے ساتھ دونوں کاپیاں اسے تھما دی تھیں اور آج آج مومنہ آئی ہی نہیں تھی۔ غصہ آنا تو فطری بات تھی۔ کل مومنہ آئے گی، تو خوب لڑوں گی اس نے فیصلہ کیا۔

’’السلام علیکم عائشہ! یہ رہیں تمہاری کاپیاں ۔ میں تو کل ہی۔۔۔‘‘ اگلے دن مومنہ نے اس کی کاپیاں اسے واپس کرتے ہوئے صفائی پیش کرنا چاہی لیکن اس نے مومنہ کی پوری بات سنے بغیر ہی کاپیاں جھپٹیں اور یہ جا اور وہ  جا۔  سننے کی بھی زحمت نہ کی۔

اب عائشہ نے کاپیوں کی جو حالت دیکھی تو اسے مزید غصہ آیا۔ ان کا کور جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا اور جلد اکھڑ نے کے قریب تھی، ایک دو صفحات پر مٹی کے نشان بھی موجود تھے، نہ جانے یہ میری کاپیوں کے ساتھ کیا کام کرتی رہی۔ ہونہہ آئندہ اسے کوئی چیز نہیں دوں گی، اس نے فیصلہ کیا۔

اسی وقت مومنہ دوبارہ اس کے پاس آئی ۔ ’’عائشہ میری بات سنو۔‘‘

’’بولو۔۔۔!‘‘ اس کے لہجے میں سرد مہری تھی۔ اب ضرور کوئی بہانہ بنائی گی۔ اس نے سوچا۔

’’پرسوں شام کو میں نے تمہاری کاپیاں اپنے چھوٹے بھائی کو دی تھیں کہ تمہیں واپس کر آئے، وہ سائیکل پر تمہاری طرف جا رہا تھا کہ راستے میں اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور بہت سی چوٹوں کے علاوہ اس کا  دایاں بازو بھی ٹوٹ گیا۔ امی تو ابھی تک گاؤں سے نہیں آئی تھیں۔ اس لئے مجھے کل کی چھٹی کرنی پڑی۔ امی کل شام کو ہی پہنچی ہیں اس لئے میں آج اسکول آئی ہوں۔ ان حالات میں مجھے ذرا فرصت نہیں ملی کہ تمہاری کاپیوں کی حالت ہی درست کر دیتی ، پلیز مجھے معاف کردو۔‘‘

عائشہ نے گہری نظروں سے اسکا جائزہ لیا اور کچھ کہے بغیر وہاں سےاٹھ آئی۔ پورا دن اس نے مومنہ سے کوئی بات نہیں کی حالانکہ اس سے اس کی بہت دوستی تھی۔

دن گزرتے گئے یہ واقعہ ماضی کی گرد میں دب گیا، پھر یہ ہوا کہ بدلتے موسم نے جہاں اور بہت سے بچوں کو بیماری کا تحفہ دیا وہاں عائشہ کو بھی شدید بخار اور کھانسی نے آ گھیرا۔ اس نے دو دن اسکول سے چھٹی کی۔ کڑوی کڑوی دوا پینی پڑی۔ تیسرے دن طبعیت سنبھلی تو امی نے اسکول بھیجا اور ایک دو دن میں وہ پوری طرح صحت یاب ہو گئی۔

اس دن کلاس میں مسں نے اطلاع دی کہ  پرسوں سائنس کا ٹیسٹ ہوگا تو ایک دم عائشہ کو یاد آیا بیماری کے دنوں میں جو چھٹیاں کیں تھیں تو سائنس کے کچھ نوٹس لکھنے رہ گئے تھے۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ کر پاس بیٹھی مومنہ نے وجہ پوچھی۔

اس نے بتایا تو مومنہ نے بغیر کچھ کہے اپنی سائنس کی کاپی نکال کر اسے دے دی۔

’’یہ لو تم اتنی سی بات پر پریشان ہو رہی تھیں۔ تسلی سے نوٹس اتارو، کل واپس کر دینا۔ ٹیست تو پرسوں ہے نا۔‘‘

عائشہ نے ممنون نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کاپی بیگ میں رکھ لی۔ عائشہ گھر پہنچی تو خالہ جان اپنے تین عدد شرارتی بچوں سمیت آئی ہوئی تھیں۔ عائشہ نے بستہ کمرے میں رکھا اورخالہ جان سے گپ شپ کرنے لگی۔ جب کہ ان کے بچے اسد اور حمزہ کے ساتھ مل کر پورے گھر میں اودھم مچا رہے تھے ۔ وہ تو شاید شام تک باتیں ہی کرتی رہتی اگر امی جان کھانے کے لئے آواز نہ دیتیں۔

’’اچھا امی جان میں یونیفارم بدل کر آتی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھی لیکن دروازے میں ہی ٹھٹک گئی۔ ’’یا خدایا یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ!!‘‘ وہ بچوں کو دیکھ کر چلائی جو کاغذ پھاڑ کر اس کے جہاز بنانے اور اڑانے میں مصرورف تھے۔

’’باجی دیکھیں میرا جہاز!‘‘  مانی نے ایک جہاز لہرایا۔

’’یہ صفحے کہاں سے پھاڑ ے ہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھی اور جیسے ہی کاپی پر نظر پڑی اس کی چیخ نکل گئی۔’’مومنہ کی کاپی!!!‘‘  پھر وہ ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔

’’کیا کیا ہے تم نے؟ یہ میری کاپی نہیں تھی میری دوست کی تھی نکل جاؤ سب میرے کمرے سے !‘‘ اور وہ پانچوں جلدی سے کھسک گئے۔

’’اف اب کیا کروں؟‘‘ اس نے آنسوئوں کو پونچھتے ہوئے سوچا۔ رات کو ڈرتے ڈرتے اس نے مومنہ کو فون کیا۔ مومنہ مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کہنا تھی۔

’’دراصل کاپی کے متعلق ہے۔‘‘

’’ کیا ابھی تک نوٹس مکمل نہیں ہوئے۔ اچھا ایسا کرنا کل اسکول لے آنا ہم دونوں مل کر لکھ لیں گے۔‘‘مومنہ اصل بات سے بے خبر بولتی چلی گئی۔

’’نہیں یہ بات نہیں ہے۔‘‘اسے بولنے میں بہت دقت ہو رہی تھی۔

’’ پھر کیا بات ہے ؟‘‘ عائشہ کے لہجے کو محسوس کرتے ہوئے وہ بھی سنجیدہ ہو گئی۔

’’وہ تمہاری ۔۔۔ میرے بھائی۔‘‘ بات پوری کرنے سے پہلے ہی وہ رو پڑی۔

’’عائشہ کیا ہو گیا ہے؟ کیوں رو رہی ہو۔ ؟ سوال نہیں آ رہے  تومیں سمجھا دوں گی۔ ‘‘ مومنہ واقعی پریشان ہو گئی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کیسے تسلی دے ۔

’’عائشہ کچھ تو بولونا۔‘‘

’’ میں تمہیں بعد میں بتأوں گی۔‘‘ بڑی مشکل سے یہ جملہ ادا کرکے اس نے فون بند کردیا۔ جب اسے اپنی کاپی کا یہ حشر نظر آئے گا تو اس کا کیا رد عمل ہوگا؟ عائشہ نے سوچا اور پھر تخیل کی نگاہ سے مومنہ کو بہت غصے میں کہتے سنا۔

’’میں نے تمہیں کاپی اس لئے تو نہیں دی تھی کہ چھوٹے بہن بھائیوں کے حوالے کر دو کہ لو جہاز بنا کر اڑأو۔ مجھے میری کاپی چاہئے صحیح سلامت حالت میں سمجھیں تم؟‘‘

اف! عائشہ نے گھبرا کر سر جھٹکا ۔ آنسو تو تھم چکے تھے مگر انجانا سا خوف مسلسل موجود تھا۔ اللہ میاں آپ تو جانتے ہیں نا کہ اس میں میرا قصور نہیں تھا ۔ پلیز معاف کر دیں۔ اس نے صدق دل سے دعا مانگی ۔اسی وقت دروازہ کھلا اور مومنہ آندھی اور طوفان کی طرح اندر داخل ہوئی۔

’’کیا ہوا ہے ؟ اتنا کیوں رو رہی تھیں؟فون کیوں بند کر دیا تھا؟‘‘ اس نے ایک دم سے کئی سوال داغ دیے اور عائشہ اسے دیکھ کر گھبرا گئی۔ پھر اس نے اسے بیٹھنے کے لئے کہا اور آہستہ آہستہ رک کر جھجکتے ہوئے ساری بات بتا دی اور پھر بولی۔ ’’ مومنہ یقین کرو میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں میرا کوئی قصور نہیں۔‘‘

اس کا خیال تھا کہ مومنہ بہت ناراض ہو گی۔ شاید غصے میں اٹھ کر ہی چلی جائے لیکن جب اس نے اسے مسکراتے دیکھا تو حیران رہ گئی۔’’ بس اتنی سی بات۔ تھوڑے سے صفحے ہی پھٹے ہیں نا جلد ہی ذرا ڈھیلی ہوئی ہے نا۔ ‘‘ اور عائشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا۔’’ تم نے میری بات کا یقین تو کر لیا ہے نا؟‘‘

’’عائشہ میں نے اقوال زیں کی کتاب میں یہ پڑھا تھا کہ ہر مسلمان کا یہ حق ہے کہ اس کا عذر قبول کیا جائے اور تم تو صرف مسلمان ہی نہیں میری اتنی اچھی دوست بھی تو ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے عائشہ کا ہاتھ تھام لیا۔ عائشہ کو کچھ دن پہلے  کا واقعہ یاد آ گیا اور اس نے سوچا کیا میں نے اپنی مسلمان دوست کا یہ حق پہچانا تھا؟


{rsform 7}