’’ماں! آج تو اتوار ہے ۔ ہمیں پڑھنے نہیں جانا ہے۔ کیا ہم باغ میں جاکر کھیلیں؟‘‘ سنجو نے اپنی ماں سے پوچھا۔
’’ کیا تم نے اور اَنجو نے دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھولیے ؟‘‘
’’جی ہاں! ماں ہم دونوں دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھو چکے ہیں۔‘‘
آج صبح تو اپنے گاؤں کا موسم بڑا سہانا لگ رہا ہے۔ رات تو بڑی بھیانک تھی کیوں کہ زلزلے کے ہلکے ہلکے جھٹکے لگ رہے تھے۔ گھر کے دروازے کھڑکیاں ہِل اٹھی تھیں۔ مکان کے اس طرح ہِلنے سے چھوٹی اَنجو تو بُری طرح ڈر گئی تھی۔
’’ جاؤ بچّو! جاکر باغ میں کھیلو ، آدھے گھنٹے بعد مَیں آواز لگادوں گی تم دونوں ناشتہ کرنے آجانا۔‘‘ ماں نے اُن دونوں سے کہا۔
’‘ماں آج ناشتے میں کیا بناؤ گی؟‘‘


’ ’ بیٹی! آج ناشتے میں اُبلے چنے ہیں ، ساتھ میں گاے کا دودھ بھی ہے۔‘‘
’’ماں اپنی گوری گاے کا دودھ پینے میں بڑا مزہ آتا ہے اور گوری نے اس سال جو بچّہ دیا ہے وہ کتھئی رنگ کا کتنا خوب صورت لگتا ہے ۔ اُس کے ماتھے پر سفید رنگ کا چاند جیسا نشان اور اس کا کودنا پھاندنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ ‘‘
سنجو کی بات کی تائید کرتے ہوئے اَنجو نے اپنی پوپلی زبان میں کہا:’’ ماں! مُدے بی دود اچھا لدتا ہے۔‘‘
’’ تم دونوں باغ میں جاکردھوم مستی مت کرنا، سب بچّوں کے ساتھ مِل جُل کر کھیلنا ۔‘‘ ماں نے تنبیہ کی ۔
’’ٹھیک ہے ماں ! ہم دونوں جارہے ہیں ، باے باے۔‘‘ سنجو نے کہا۔
باغ میں کئی بچّے پہلے ہی سے موجود تھے۔ جو رات کے زلزلے کے جھٹکوں میں گرے ہوئے آم کے درخت سے بات چیت کررہے تھے۔ ان بچّوں کو کھیلنے سے زیادہ اُس گرے ہوئے آم کے درخت سے بات چیت کرنا اچھا لگ رہا تھا۔
رمیش نے کہا:’’ آم دادا! تمہیں زمین پر گرنے سے چوٹ توبہت آئی ہوگی۔‘‘
آم روہانسا ہوکر بولا:’’ ہاں بچّو! مجھے چوٹ تو بہت آئی ہے ۔میری کئی شاخیں توٹ گئی ہیں ، لیکن مَیں ہمت نہیں ہار رہا ہوں۔‘‘
’’آم دادا ! تم تو بہت بہادر تھے ۔ تم زلزلے کے جھٹکوں سے لڑ کیوں نہیں پائے؟‘‘ سنجو نے پوچھا ۔
’’پیارے بچّے! مَیں لڑتا کیسے ؟میرے ارد گرد کارخانے اور فیکٹریاں کھول کر ان کے زہریلے دھوئیں سے میری ہریالی کو ختم کردیا گیا ہے اورساتھ ہی میری جڑ کے آس پاس گاؤں والوں نے پیلی مٹّی کھود کھود کر ، کھوکھلا جو کردیا ہے ، اس وجہ سے میری طاقت کم ہوگئی ہے۔ اگر کسی کے پیروں کو کم زور کردیا جائے تو وہ کیسے چلے گا اور کھڑا ہو پائے گا؟ میرے گرنے سے کئی پرندوں کے گھونسلے بھی گر گئے ۔ بے چاروں کے انڈے اور کچھ کے بچّے بھی دب کر مر گئے۔ یہ سب انسانوں کی وجہ سے ہوا۔‘‘ آم دادانے سنجوسے کہا۔
سب بچّے ٹوٹے ہوئے گھونسلوں کو دیکھنے لگتے ہیں ۔ گھونسلوں اورمرے ہوئے بچّوں کو دیکھ کر بچّے افسوس کرتے ہیں۔
ان بچّوں میں سریش نام کا لڑکا عمر میں سب بڑا اور ہوشیار تھا۔ جو کہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ بولا:’’ آم دادا! میرے ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر کسی مکان کی بنیاد کم زور کر دی جائے تو وہ جلد ہی گر جاتی ہے، اب اس بات کا مطلب سمجھ میں آیا۔‘‘
’’ ہاں ہاں! صحیح کہا ہے تمہارے ماسٹر صاحب نے، کسی کی بنیاد کو کم زور کرنا اچھی بات نہیں ، جیسا کہ گاؤں والوں نے میرے ساتھ کیا۔‘‘
سنجو نے دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا :’’ یہ تو ہمارے گاؤں والوں نے بہت بُرا کیا ۔ ایسا ہم سب کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
’’ہاںبچّو! تم سب سمجھ گئے ہوکہ مَیں کس طرح اور کس وجہ سے گرا ہوں ۔ اب کوشش کرنا کہ میرے کسی بھائی کی ہریالی ختم نہ ہونے پائے اور نہ ہی میری جڑوں کے آس پاس جس طرح مٹّی کھودی گئی ہے میرے دوسرے درخت بھائیوں کی بنیادوں کو کم زور مت ہونے دینا اگر ایسا ہوا تو دنیا میں درخت ختم ہونے لگیں گے جس سے تازہ اور صاف ہوا ملنی مشکل ہوجا ئے گی۔ ‘‘ آم دادانے بچّوں کو نصیحت کی ۔
’’ کیا ہم سب مِل کر تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں ، کیا تم کو ہی دوبارہ کھڑا کرسکتے ہیں ؟‘‘ سب بچّوں نے ایک ساتھ کہا۔
’’ اب تو بڑا مشکل ہے ، لیکن مَیں نے تم کو جو نصیحت کی ہے اُس پر عمل کرنا یہی میری اصل مدد ہے ۔ آج کے بعد سے تم عہد کرو کہ تم کسی بھی درخت کی جڑوں کو کم زور نہیں ہونے دو گے ۔‘‘
آم دادا کی بات سُن کر سب بچّوں نے وعدہ کیا کہ آج سے ہم ہر درخت کی حفاظت کریں گے ۔ اسی دوران سنجو اور اَنجو کی ماں نے ان کو ناشتے کے لیے پکارا اور وہ دونوں بھائی بہن ناشتہ کرنے کے لیے گھر کی طرف چل دیے۔(ماخوذ)

{rs form7}