میں تیز رفتاری کے ساتھ سائیکل چلا رہا تھا۔سانس پھول رہاتھا۔موسم میں حبس کے باعث جسم پسینہ سے شرابور ہوچکاتھا۔ میری نظرباربار دستی گھڑی کی جانب جارہی تھی۔ کوشش تھی کہ بروقت ٹیوشن سینٹر پہنچ جاؤں۔ دراصل آج اسکول سے آنے کے بعد کھانے کے بعد جو سویا تو عین عصر کی اذان کے وقت آنکھ کھلی۔ بھاگم بھاگ گھر سے نکل کر مرکزی سڑک پر آیا تو جیسے جیسے آگے بڑھتاگیا ، ویسے ویسے سڑک پر ٹریفک جام دکھائی دے رہا تھا۔ ہجوم اتنا تھا کہ محاورۃً نہیں حقیقتاً کھوئے سے کھوا چل رہا تھا ۔ اس صورت حال نے میرے اوپر مزید جھنجلاہٹ اور بے زاری طاری کردی۔ میں نے خطرات کے باوجود عجلت سے کام لیتے ہوئے مخالف سڑک پر سائیکل ڈال دی اور پوری قوت سے پینڈل پر پاؤں مارنے لگا۔ جلد ہی میں سر راشد کے دروازے پر کھڑا تھا۔

سر راشد میرے لیے ایک راہنما اور مثالی استاذ تھے۔ وہ طلبہ سے بے انتہا شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ یہی وجہ تھی ہر سطح کا طالب علم ان سے جلد مانوس ہوجاتا اور ان کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوکر ان کی شخصیت کے سحر میں کھوجاتا۔ ایسا کیوں نہ ہوت آخرسر راشد اپنے والدین کے اکلوتے تھے اور انہوں نے والدین کی خدمت، اطاعت اور وفا شعاری میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ سر راشد کے ماں باپ ان کی ہونہاری اور جاں نثاری پر شاداں وفرحاں تھے اور اٹھتے بیٹھتے انہیں دعاؤں سے نوازتے تھے۔ چناں چہ اللہ پاک نے ان کی دعاؤں کو قبول فرما کر انہیں دنیا ہی میں لوگوں کے درمیان چمکادیاتھا۔
میں دروازے سے داخل ہوکر متعلقہ کمرے میں پہنچا تو سر راشد ابھی تشریف نہیں لائے تھے۔ ہاں نعمان، عاطف اور ہادی آچکے تھے۔ ساتھیوں سے علیک سلیک کی اور جلدی سے بستہ کھول کر فزکس کے سوالات یاد کرنے لگا۔ چند ساعتوں کے بعد سر باآوازبلند اور فصیح لہجے میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی مخصوص نشست پر براجماں ہوگئے۔ ہم سب جو اپنی اپنی کتابوں اور کاپیوں پر نظر جمائے ہوئے تھے، سر کی طرف متوجہ ہوگئے۔سر راشد چند لمحوں تک ہمارے چہروں کاجائزہ لینے کے بعد گویا ہوئے:
’’
آج ہم سبق نہیں پڑھیں گے۔ ‘‘
’’
کیوں سر!‘‘یہ آواز ہادی کی تھی۔
’’
اس لیے کہ کبھی کبھی ہمیں غیر نصابی گفتگو بھی کرنی چاہیے ، اس طرح استاذ اور طالب کے درمیان ربط ضبط بڑھتا ہے اور طلبہ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سر کی نگاہیں میرے سراپے پر آکر ٹھہر گئیں۔
میں جو اب تک خاموش اور اپنی اندرونی کیفیت کو چھپائے بیٹھا تھا، سر کی بے تکلفی اور محبت آمیز لہجہ دیکھ کر بولا:
’’
سر! ابھی راستے میں آتے ہوئے میں کافی پریشانی کاشکار رہا۔‘‘
’’
کیوں بھئی!آخر ایسا کیا ہوگیا،جس سے آپ کو پریشانی لاحق ہوگئی؟‘‘سر کا استفہام سن کر میں نے اپنی روداد کہہ سنائی۔ خاموش ہوا تو سر نے دھیمی سے مسکراہٹ کے ساتھ اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے اور میرے قریب آکھڑے ہوئے۔ پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے:
’’
حنظلہ! میں تمہیں ذہین اور سمجھدار بچہ سمجھتا تھا، لیکن یہ تم نے کیا بے وقوفی کہ ٹیوشن سینٹر پہنچنے کے لیے عصر کی جماعت بھی چھوڑ دی اور پھر یہاں تک آنے کے لیے غلط طریقہ اور راستہ بھی اختیار کیا۔تمہیں پتا ہے نا دو دن قبل میرے پڑوسی کے بچہ کے ساتھ کیا اندوہ ناک حادثہ پیش آیا تھا۔ ‘‘
سر کی مشفقانہ ڈانٹ سن کر میری پیشانی پر شرمساری کے اثرات ظاہر ہوتے چلے جارہے تھے ۔
’’
دیکھو حنظلہ! ہم جب اپنی زندگی کے اندر اللہ جل شانہ کے احکام کو پامال کرتے ہیں، تو شیطان ہم پر حاوی ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہم سے ایسے اعمال سرزد کراتا ہے جو نہ صرف آخرت میں ہمارے لیے پشیمانی ، بلکہ دنیا میں بھی ہمیں بسا اوقات نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ایک حدیث مبارکہ ہے کہ جس کی نمازِ عصر قضا ہوگئی، اس کا گویا گھربار لٹ گیا اور گھر کے سارے لوگ ہلاک ہوگئے، اس لئے نماز قضا کرنا تو جائز نہیں۔ پھر جلدبازی،بے صبری، عدم برداشت کا مظاہرہ بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ ایک دوسری حدیث شریف میں ہمارے پیارے نبی جناب رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جلدی شیطان کی طرف سے اور تحمل و بردباری اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘
’’
سر! مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ ان شاء اللہ العزیز آئندہ اپنی زندگی کے ہر ہر قدم پر تحمل اور برداشت کو سامنے رکھوں گا اور کبھی نماز کو قضا نہیں کروں گا۔‘‘یہ کہتے ہوئے میرے لہجے سے پختہ عزم جھلک رہا تھا۔
’’
بہت خوب! تب تم ایک کامیاب انسان بننے کی طرف پہلا قدم رکھو گے۔‘‘ سر نے مسکراکر کہا اور میں تیزی سے باہر کی طرف لپکا عصر کی نماز پڑھنے کے لیے۔۔۔