’’دروزہ کھولو..... اندر جلدی چلو ....جلدی کرو۔‘‘
بلو اورفاتی دوڑےدوڑے گھر کی طرف بھاگے چلے آرہے تھے۔
فاتی نے کہا۔’’ تیز مت دوڑو ۔کہیں تمھارے ہاتھ سے گر نہ جائے ۔ہماری ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے اب دوازہ کھولو کوئی ہمیں دیکھ نہ لے ۔‘‘
بلو نے جواب دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شانی جو کہ ان کے پڑوس میں رہتا تھا ، اس کے ابو نے اس کو دوپیارے چوزے دلائے تھے۔ ہرروزاسکول سے واپسی پر بلو اور فاتی اس کو پیارے چوزوں کے ساتھ کھیلتا دیکھتے تھے۔بلو کو چوزے بہت پسند تھے ۔اس کے ساتھ فاتی بھی کھڑی ہوجاتی۔
ایک دن شانی کے چوزے پنجرے سے باہر تھے اور شانی بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ بلو نے فاتی سے کہا۔
’’ میرے ذہن میں ایک پلان ہے۔آؤ ان پیارے چوزوں کو اپنے گھر لے جائیں۔‘‘
’’نہیں!بالکل نہیں! یہ اچھی بات نہیں ۔یہ چوزے تو شانی کے ہیں۔ہم کیسے لے کر جائیں گے؟‘‘ فاتی نے انکار کرتے ہوئے کہا۔
بلو نے کہا۔’’ ٹھیک ہے تم مت پکڑو میں خود لے جاؤں گا لیکن پھر میرے ساتھ کھیلنا نہیں۔‘‘
فاتی نے یہ سنا تو سوچ میں پڑ گئی۔
’’اچھا! چلو ٹھیک ہے ۔ میں بھی آئی مجھے بھی کھیلنا ہے ۔‘‘
یہ کہہ کر وہ آہستہ آہستہ دبے قدموں سے پنجرے کے پاس گئے۔ پہلے انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ شانی شاید سکول سے آکر آرام کر رہا تھا۔ لان میں کوئی بھی نہیں تھا۔
انہوں نے دونوں چوزوں کو اٹھا لیا۔چوزوں نے بہت چوں چوں کی لیکن ان دونوں نے بھاگتے ہوئے گھر پہنچ کر ہی سانس لیا۔
’’بچو! آپ دونوں کہاں گئے تھے؟‘‘
ابھی وہ چوزوں کو کمرے میں رکھ کر باہر آئے ہی تھے کہ ماما کے سوال پر اچھل پڑے اور ایک دوسرے کوگھور کر دیکھنے لگے۔
فاتی نے بلو کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہی ہو۔’’ اب جواب دو ناں!‘‘
بلو نے گڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’ماما وہ ہم چوزوں کو دیکھنے کھڑے ہو گئے تھے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوزے کمرے ادھر ادھر چوں چوں کرتے چکر کاٹ رہے تھے ۔
یہ دیکھ کربلو نے فاتی سے کہا۔’’ یہ تو ہماراکمرہ گندہ کردیں گے۔تم پراناپنجرہ اٹھالاؤ جو چھت پر پڑا ہوا ہے۔ میں ان کے لیے باجرہ اور پانی لاتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر دونوں کمرے سے باہر نکلے تو امی سامنے کھڑی ان کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
’’ ذرا بتاؤ توسہی کمرے سے کس کی آواز آرہی ہے؟‘‘
’’ امی!یہ شانی کے چوزے ہیں نا ں۔اس نے ہمیں دےدیے ہیں اب وہ ان کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتا۔‘‘ بلو نے کہا توفاتی نے اسے گھور کر دیکھا۔
’’ٹھیک ہے بیٹا ۔لیکن اب ان کا خیال رکھنا۔‘‘
یہ کہہ کر امی چلی گئیں تو فاتی نے غصے سے بلو کو دیکھا ۔
’’تم صبح سے جھوٹ بول رہے ہو۔ یہ اچھی بات نہیں۔‘‘
بلو جھلا گیا۔
’’تو کیا بتاتا کہ ہم نے چوری کی ہے؟‘‘
فاتی نے کوئی جواب نہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات تک دونوں نے چوزوں کو دوڑیں لگوائیں اور ان کے ساتھ خوب جی بھر کر کھیلے۔انہوں نے چوزوں کے نام بھی رکھ دیے تھے۔ ٹونو اور مونو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاتی نے صبح اٹھ کر آنکھیں ملتے ہوئے بلو کو جگایا ۔
’’بس اٹھ جاؤ بلو! ٹونومونو کو باجرہ اور پانی ڈالنا ہے ناں ۔‘‘
دونوں منہ ہاتھ دھو کر دوڑتے ہوئے پنجرے کی طرف گئے اور باجرہ پانی ڈالا۔ لیکن یہ کیا ؟ فاتی غور سے ٹونومونو کو دیکھ رہی تھی کہ یہ تو نہیں کھارہے ۔
بلو بھی پریشان ہوکر ٹونومونو پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔
’’یہ دونوں تو عجیب طرح سے سانس لے رہے ہیں ۔ان کو کیا ہوگیاہے؟‘‘ فاتی نے پریشان ہو کرکہا۔
’’بچو! تم دونوں کیا کر رہے ہو؟‘‘ بابانے پاس آکر سوال کیا۔وہ گیٹ کی جالی میں لگی ہوئی اخبار لینے آئے تھے۔
’’بابا جان معلوم نہیں چوزے بیمار لگ رہے ہیں۔کچھ نہیں کھارہے۔‘‘
بابا نے قریب آکر چوزوں کودیکھا تو حیران ہوگئے ۔
’’بچوں ! پہلے یہ بتاؤ کہ یہ چوزے کہاں سے آئے؟ کس نے دِلائے؟‘‘
یہ پوچھنا تھا کہ دونوں کی سٹی گم ہوگئی۔
ماما جو پودوں کو پانی دے رہی تھیں کہنے لگیں۔ ’’بلو بتاؤ نا کہ یہ تمھیں شانی نے دیے ہیں۔‘‘
’’صحیح سے بتاؤ۔‘‘بابا غصہ ہوئے۔
’’جی ہاں! کل سے شانی اپنے چوزوں کو ڈھونڈ رہا ہے اور بہت اداس ہے وہ تو میں شام کو مسجد سے واپس آرہا تھا تو شانی کو میں نے روتے ہوئے دیکھا ۔اس کے ہاتھ میں ان ہی چوزوں کی تصویر تھی۔اور یہ دونوں چوزے چراکر لائے ہیں نہ کہ شانی نے دیے۔‘‘ بابا نے ساری تفصیل بتا دی۔
بلو اور فاتی کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے ۔
ماما نے اداس ہوکر کہا ۔’’تم دونوں نے چوری کی اور مجھ سے جھوٹ بھی بولا ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ یہ چوزے بیمار ہوگئے ۔کیوں کہ ان کو شانی اور اپنا گھر یاد آرہا ہے۔اور شانی کا بھی کل سے دل خفا ہے۔تمھارے جھوٹ اور چوری سے چوزے بھی اداس ہیں۔‘‘
’’سوری ماما بابا! آئندہ نہیں کریں گے۔‘‘ دونوں نے جھجھک کر سوری کی۔
’’ٹھیک ہے بچو! اب ان چوزوں کو جاکر شانی کو دے آؤ اور اس سے معافی بھی مانگو۔‘‘
بلو نے آہستہ سے پنجرہ اٹھایا دونوں شانی کے گھر چلے گئے۔
’’شانی! ہمیں معاف کر دو۔ کل جب تم سکول سے آکر سو رہے تھے تو ہم تمھارے چوزے اپنے گھر لے آئے۔ ‘‘
’’اچھا کوئی بات نہیں۔ ‘‘ شانی نے کھلے دل سے کہا۔ وہ اپنے چوزوں کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔
’’ تم دونوں شام کو میرے گھر آجایا کرو ۔ہم مل کر چوزوں کا خیال رکھیں گے اور ان کے ساتھ کھیلیں گے ۔‘‘
’’تھینک یو شانی تم بہت اچھے ہو۔‘‘ بلو نے پرجوش ہوکر کہا۔
فاتی نے کہا۔’’شانی ہم نے ان چوزوں کے نام ٹونو مونو رکھا ہے کیا تم ان کے نام تو نہیں بدلوں گےنا؟‘‘
’’نہیں یہ نام تو مجھے بھی بہت اچھے لگے ہیں‘‘ شانی مسکرایا۔
’’وہ دیکھو !‘‘
اچانک بلو خوشی سے اچھلا۔’’ٹونومونو پھر سے دوڑنے لگے ہیں۔‘‘ فاتی اور شانی نے بھی ادھر نظر دوڑائی۔
ٹونو مونو تیز تیز یہاں وہاں بھاگ رہے تھے۔ وہ اپنے گھر واپس آکر بہت خوش تھے۔