پیارے بچو! آج میں آپ کو شیری کی کہانی سناؤں گی۔ شیری اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ پڑھائی میں تیز تھا اور کھیل کود کا بھی شوقین تھا۔ ویسے تو شیری میں تمام اچھی خوبیاں موجود تھیں۔لیکن اس کی ایک عادت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ یہ کہ وہ ہر کام کو بعد میں کرنے کے لئے ٹال دیتا۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے اسے \اکثر ڈابھی پڑتی۔نٹ
ایک دفعہ امی نے اسے کہا،"شیری بیٹا! دروازے پر دودھ والا آیا ہے، اس سے دودھ لے
کر باورچی خانے میں رکھ دو، میں نماز پڑھ کر ابالتی ہوں۔" شیری اس وقت ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اس نے دودھ کا برتن وہیں پاس رکھی میز پر رکھا اور دوبارہ سے ٹی وی میں مگن ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں بلی آئی اور دودھ پی گئی۔امی نماز پڑھنے کے بعد جب آئیں تو دیکھا آدھا دودھ میز پر گرا ہوا ہے اور آدھا غائب ہے۔ اس پر شیری کو بہت ڈانٹ پڑی۔ لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہ آ سکا۔
ایک دن شیری کے ساتھ ایسا واقعہ ہوا کہ اس نے اپنی عادت سے توبہ کر لی۔ ہوا یوں کہ شیری کا اسکول پکنک منانے جا رہا تھا۔ شیری کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ ماسٹر صاحب نے سب بچوں کو ہدایت کی کہ پکنک پر صرف وہ ہی بچے جائیں گے جو اپنے امی ابو سے تحریری اجازت نامہ لکھوا کر لائیں گے۔ اور جس بچے کے پاس اجازت نامہ نہیں ہوگا وہ نہیں جا سکے گا۔ شیری چھٹی کے بعد خوشی خوشی گھر پہنچا اور امی کو ساری بات بتائی۔ امی نے کہا،"بیٹا! میں آپ کو اجازت نامہ لکھ دیتی ہوں، پہلے آپ اپنی اسکول یونیفارم کی دوسری قمیص لا دو۔ دھوتے وقت میں نے دیکھا کہ اس کی جیب پھٹ گئی ہے۔"شیری امی کی بات ان سنی کرتے ہوئے فرج میں کھانے پینے کی چیزیں ڈھونڈنے لگا۔ تھوڑی دیر میں امی نے شیری کو کہا کہ میں نے اجازت نامہ لکھ دیا ہے، اسے اپنے پاس رکھ لو، نہیں تو بھول جاؤ گے۔ اور اپنی قمیض دے دو، میں تمہارے ابو کی قمیض سی رہی ہوں، تمہاری بھی سی دوں۔" ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شیری امی کی بات پر عمل کرتے ہوئے اجازت نامہ اپنے پاس رکھ لیتا، لیکن حسب عادت اس نے لاپرواہی سے کام کیا اور ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا۔
شام کو اس کا دوست آیا اور اس نے اسے بتایا کہ میدان میں کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے، چلو دیکھنے چلتے ہیں۔ شیری جلدی سے اٹھا اور تیار ہو کر اپنی سائیکل نکالی مگر سائیکل کا ٹائر پنکچر تھا۔ اس کے دوست نے کہا کہ پہلے پنکچر لگوا لیتے ہیں پھر میچ دیکھنے چلیں گے۔ لیکن شیری نے کہا کہ میں تمہاری سائیکل پر بیٹھ جاتا ہوں، بعد میں پنکچر لگوا لیں گے۔ میچ ختم ہوتے ہوتے مغرب ہو گئی اور تب تک پنکچر کا خیال شیری کے دماغ سے نکل چکا تھا۔ گھر آکر وہ ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا اور پھر سو گیا۔
صبح امی نے اس کو جگایا۔ وہ خوشی خوشی تیار ہوا۔ امی نے کچھ پیسے دئے کہ پکنک پر جھولوں میں پر بیٹھ سکے۔ شیری نے اسکول جانے کے لئے سائیکل اٹھائی، لیکن یہ کیا؟ سائیکل تو پنکچر تھی۔ شیری کو بڑا افسوس ہوا کہ اس نے کل ہی کیوں نا سائکل کا پنکچر لگوا لیا۔ وہ جلدی اسکول پہنچ جاتا اور بس میں آگے کی سیٹ پر بیٹھ کر جاتا۔ پھر اس نے سوچا کہ ابھی تو کافی وقت ہے،میں بس سے چلا جاتا ہوں۔ امی کو خدا حافظ کہا اور بس اسٹاپ کی طرف روانہ ہو گیا۔ بس جلد ہی آ گئی۔ شیری اس میں سوار ہو گیا۔کچھ دیر بعد کنڈکٹر نے ٹکٹ کے لئے پیسے مانگے تو شیری نے جیب میں ہاتھ ڈالا پتا چلا کہ پیسے تو پھٹی ہوئی جیب سے نا جانے کب راستے میں گر چکے ہیں۔ اب تو شیری کو بڑی شرمندگی ہوئی۔ کنڈکٹر نے اسے بس سے اتار دیا۔ شرمندگی سے شیری کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔ سوچنے لگا کہ کاش امی سے اسی وقت جیب سلوا لیتا تو یہ نا ہوتا۔ اب وقت تھوڑا رہ گیا تھا۔ اس نے اسکول کی طرف دوڑ لگائی تاکہ بسوں کے نکلنے سے پہلے وہاں پہنچ جائے۔ دس منٹ کی دوڑ کے بعد وہ اسکول پہنچ گیا لیکن تب تک اس کے بال بکھر چکے تھے۔ جوتے مٹی سے اٹ گئے تھے۔ خود اس کا سانس بھی پھولا ہوا تھا۔ سب بچے بسوں میں بیٹھ چکے تھے۔ماسٹر صاحب نے شیری کو دیکھا اور پھر بولے اجازت نامہ دکھاؤ اور جلدی سے بس میں بیٹھو۔ یہ سن کر شیری کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ کیونکہ امی کے کہنے کے باوجود اس نے اجازت نامہ اٹھا کر اپنے پاس نہیں رکھا تھا۔ ماسٹر صاحب نے اجازت نامے کے بغیر شیری کو ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا اور بسیں چل پڑیں۔اپنے دوستوں کو مزے سے پکنک پر جاتا دیکھ کر شیری رونے لگ گیا۔ اور دل میں افسوس کرنے لگا کہ نہ میں امی کے کہنے کو دوسرے وقت کے لئے ٹالتا اور نہ ہی آج مجھے اتنی پریشانی اور شرمندگی ہوتی۔
بس اسی دن سے شیری نے دل میں پکا عہد کر لیا کہ آئندہ وہ کوئی بھی کام اگلے وقت پر نہیں ٹالے گا۔ اور اب تو وہ اپنے دوستوں کو بھی یہی نصیحت کرتا ہے۔
{rsform 7}