سعد باہر لان میں ساتھ والی بوڑھی خالہ سے مشین پکڑ کر زبردستی گھاس کاٹنے لگا کیونکہ بانو خالہ بہت بوڑھی تھیں۔ ان کے شوہر کی وفات ہو چکی تھی اور ایک ہی بیٹا تھا جو کسی دوسرے ملک میں رہتا تھا اس لئے وہ اکیلی ہی رہتی تھیں۔ اتنی بھاری مشین ان سے چل نہیں رہی تھی۔ سعد اکثر کاموں میں انکی مدد کر دیتا۔ آج بھی دیکھا تو زبردستی ان کی مدد کرنے لگا۔
جب گھاس کٹ گئی تو بانو خالہ نے زبردستی دس روپے کا نوٹ سعد کے حوالے کیا کہ وہ اسکی چاکلیٹ لے کر کھا لے۔ سعد نے بہت منع کیا مگر خالہ کی ناراضگی دیکھتے ہوۓ نوٹ لے کر جیب میں رکھ لیا۔ سعد یہ کام پیسوں کے لالچ میں نہیں کرتا تھا بلکہ اسکے والدین نے اسے دوسروں کی مدد کرنا ہی سیکھایا تھا۔
بابر جو کہ ہمسائے کے ساتھ ساتھ سعد کا کلاس فیلو بھی تھا یہ سارا منظر اپنی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنی امی کو بھی بلا کر دکھا یا تھا۔
’’ہونہ!‘‘ بابر کی امی نے نخوت اور غرور سے سر جھٹکا اور بولیں۔’’ یہ سعد بھی پتہ نہیں کیوں ہر وقت دوسروں کے اتنے کام کرتا رھتا ہے۔ میں آج ہی اسکی امی سے بات کرتی ہوں۔ اتنا چھوٹا سا بچہ ہے۔ ویسے تو وہ لوگ بڑے امیر بنتے ہیں مگر 13 سال کے بیٹے کو لوگوں کی گھاس کٹوا کر پیسے لینے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔کیا ضرورت ہے ایسے کام کروانے کے بچے سے کتنا محنت کا کام ہے گھاس کاٹنا بھی اور کیسے مزے سے کاٹ رہا تھا۔میں تو اپنے بیٹے کو اٹھ کر کبھی پانی بھی پینے نہ دوں ۔اتنا نازوں پلا لاڈلا بیٹا ہے میرا۔‘‘
با بر کی امی واقعی اس سے کوئی کام نہیں کرواتی تھیں۔ وہ ہر وقت لاڈلا بنا بستر پر بیٹھا فرمائشیں کرتا رہتا ۔ اسکو خود اٹھ کر پانی پینے کی عادت بھی نہیں تھی ۔وہ بہت آرام طلب اور سست بچہ بن گیا تھا۔
اتفاق سے دوسرے ہی دن گھر سے باہر بابر اور سعد کی امی کی ملاقات ہو گئی۔ بابر کی امی نے خوب لتے لینے شروع کئے کہ آپ ایسا کیوں ظلم کرتی ہیں بچے پر اور اتنا کام کیوں کرواتی ہیں چھوٹے سے بچے سے کام کروانا بہت بری بات ہے۔
یہ سن کر سعد کی امی مسکرا دیں اور کہنے لگیں۔
’’بہن۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ اچھی زندگی گزارنے کے لئے بچوں میں اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی عادت بچپن سے ڈالنی چاہیئے۔ بڑے ہونے پر یہی عادت پختہ ہو جاتی ہے اور انسان کسی پر بوجھ نہیں بنتا۔ کبھی کسی مشکل کے سامنے ہمت نہیں ہارتا اور ہر طرح کے برے حالات میں گزارا کرنا سیکھ لیتا ہے۔‘‘
اسی طرح دن ماہ و سال میں بدلتے رہے۔ سعد کی محنت و مشقت کرنے والی عادت پکی ہوتی گئی جبکہ بابر مزید سست اور آرام پسند بنتا گیا۔
ایک دن سعد اور بابر دونوں گھر سے باہر کرکٹ میچ کھیل رہے تہے کہ اچانک زمین زور زور سے ہلنے لگی۔ وہ دونوں ڈر گئے اور بابر زمین پر گر گیا۔ سعد اسکو اٹھانے کو بھاگا کہ اتنی دیر میں زور دار دھماکہ ہوا اور زلزلے کے سخت جھٹکے سے ان کے اردگرد کے تمام مکانات زمین بوس ہو گئے۔ بدقسمتی سے ان دونوں گے گھر والے گھر کے اندر ہی تھے جو اب چھت گرنے سے دب کر شہید ہو گئے تھے۔
دونوں بہت روئے چیخے ۔ انکا کوئی سہارا جوباقی نہ رہا تھا۔ اگر وہ بھی گھر کے اندر ہوتے تو اب تک مر چکے ہوتے مگر باہر ہونے کی وجہ سے بچ گئے تھےاور اب زمانے کی سختیاں برداشت کرنے کو زندہ رہ گئے۔
کافی دن تک انکو کچھ کھانے کو بھی نہیں ملا۔ امدادی پارٹیاں بھی ان سے دور دور گھوم رہی تھیں۔ انکے محلے کے کچھ ہی لوگ بچے تھے۔ ایک ہفتے کے اندر کچھ امدادی گروپ وہاں پہنچ گئے اور انہیں ٹرکوں میں لاد کر بڑے شہروں میں لے آئے۔
زلزلہ اتنا بڑا تھا کہ ملکی سطح پر کافی نقصان ہوا تھا کسی کو مزدوری بھی ملنا مشکل ہو رہا تھا۔ یہ دونوں بھی مارے مارے شہروں شہروں پھرتے رہے۔ بابر کو تو ہل کر پانی پینے کی بھی عادت نہیں تھی اس لئے اس سے کوئی کام نہیں کیا جاتا تھا جبکہ چودہ سالہ سعد اسکا ہم عمر ہونے کے باوجود بہت محنتی اور کام کاج کرنے والا لڑکا تھا۔ وہ کچھ کچھ نہ کچھ محنت مزدوری کر کے دونوں کے کھانے کا انتظام کر لیتا۔ ساتھ ساتھ اس نے پڑھائی بھی شروع کر دی تھی مگر بابر اس میں سے کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ غرض اسی طرح 10 سال گزر گئے اور سعد نے بہت محنت کی۔ ایم بی اے کرنے کے بعد کسی کمپنی میں ملازم ہو گیا۔ اس کے دن پھر گئے اور زندگی بہت حد تک آسان ہو گئی لیکن بابر کچھ بھی نہیں کر سکا چونکہ وہ محنت سے جی چراتا تھا تو اس لئے در بدر بھیک مانگتا رہا۔ اسکا یہی ایک کام تھا۔ سردی گرمی میں مارا مارا پھرتا۔ کبھی کوئی کھانا کھلا دیتا تو کھا لیتا ورنہ یونہی بھوکا پیاسا سو جاتا۔
دیکھا بچو محنت میں عظمت ہوتی ہے۔ محنت سے جی چرانے والا انسان زندگی بھر ناکام رہتا ہے اور محنت کرنے والا کیسے بھی حالات میں اچھی زندگی خود اپنی محنت سے بنا لیتا ہے۔