یہ جون کی تپتی دوپہر تھی ۔ سورج اپنے جوبن پر تھا۔ حمزہ کا حلق جیسے سوکھ گیاتھا۔ بھوک سے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ ایسے میں حمزہ کو یاد آیا کہ فریج میں کولڈ ڈرنک اور کچھ کھانے کی چیزیں موجود ہیں۔ آج تو میرا روزہ ہے وہ بھی پہلا۔نہیں میں ایسانہیں کرسکتا۔ ہاں توکیا ہوا ویسے بھی یہاں کون دیکھ رہاہے ؟ لفظ گڈ مڈ ہونے لگے تھے …ہاں …ہاں …نہیں …اللّٰہ جی تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ دادی اماں اپنے کمرے میں عبادت کررہی ہیں۔ امی اور ابو ویسے گھر پر نہیں ہیں۔ فاریہ ابھی بہت چھوٹی ہے اس کو کیا پتا …اپنی چھوٹی بہن کا خیال آتے ہی حمزہ سوچ میں پڑ گیا ۔ فاریہ کو کیا پتا روزہ کیاہوتاہے ۔ اب حمزہ کے دل ودماغ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔ فریج کا دروازہ آدھا کھلا ہواتھا۔ فریج میں جو قسم قسم کے مشروبات اور لذیذ آم صاف نظر آ رہے تھے ۔ یہ ٹھنڈے مشروب سوکھے حلق کو سیراب کرسکتے تھے۔ اللّٰہ جی ناراض ہوں گے ۔ آخر اللّٰہ جی کی ناراضگی کے خوف کا خیال غالب آنے لگاتھا۔


حمزہ نے فریج کا دروازہ بند کیا۔ اب حمزہ اپنے کمرے میں آگیاتھا۔ ابھی تک حمزہ بھوک اور پیاس کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھا۔ اپنی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے ٹی وی ریموٹ پکڑا اور چینل تبدیل کرنے لگا ۔ ایک چینل پر جیسے اس کی انگلیاں ریموٹ پر جم گئی تھیں۔ یہ چینل صومالیہ پر رپورٹ دکھا رہاتھا۔ جس میں صومالیہ کے بچوں کو جب اناج کاایک پیکٹ دیا جاتا تو سب اس پر جھپٹ پڑتے ۔ یہ پیکٹ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے پھینکے جارہے تھے۔ حمزہ کو یاد آگیاکہ ایک دن جب اس نے پیزا آرڈر کیاتھاتو پیزا لے کر آنے والا لڑکا غلطی سے دوسرا پیزا لے آیا تھا۔ حمزہ نے اس لڑکے کو برا بھلا کہاتھا ، پیزا لے کر اس لڑکے کے سامنے پھینک دیاتھا۔ حمزہ کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر گھومنے لگا۔ جس میں اس نے کیفے ٹیریا سے فروٹ چاٹ لی۔ اسے جب یہ پسند نہ آئی تو اس نے اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ہوئے کیفے کے چھوٹے کوبلا کر ساری فروٹ چاٹ اس کے سامنے ضائع کردی تھی ۔ حمزہ کے ماتھے پر نمی آگئی تھی ۔ جیسے کسی برے خواب نے اس کی آنکھیں کھول دی ہوں ۔ حمزہ نے گاڑی کی چابی پکڑی اور رضوان کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ رضوان اور حمزہ کلاس فیلو بھی تھے ۔ رضوان کا گھر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔وہ جب بھی فارغ ہوتا رضوان کے گھر چلا جاتا تھا۔ حمزہ جب رضوان کے گھر پہنچا ۔ گھر کے لان میں سفید داڑھی والے باباجی کام کررہے تھے۔ بابا جی رضوان گھر پر ہے ؟ ”نہیں صاحب جی گھر پر تو کوئی نہیں۔ “ چلیں ٹھیک ہے۔ حمزہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھاکہ کیا دیکھتاہے کہ بابا جی کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔یہ بابا جی عرصہ دراز سے رضوان کے گھر مالی تھے۔ رضوان کے گھر کے پودوں کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔ حمزہ نے کبھی بھی کام کرنے والوں میں کوئی دلچسپی نہ لی تھی ۔ با با جی کیا آپ نے روزہ رکھاہے ؟ حمزہ نے کانپتے ہاتھوں سے پودوں کو درست کرتے بابا جی سے سوال کیا “ جی بیٹا جی الحمدللّٰہ روزہ سے ہوں۔ بابا جی آپ روزہ کے ساتھ سخت محنت کرتے ہیں ۔ آپ کو بھوک اور پیاس نہیں لگتی؟ بیٹا لگتی توہے لیکن جس اللّٰہ کے لیے میں یہ تکلیف برداشت کرتاہوں۔ وہ اب پروردگار صبر بھی دیتاہے۔ بیٹا اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”روزہ خاص میرے لیے ہے اس کا اجر بھی میں دوں گا۔ “ میرا رب جس کام کا اجر دینے کا خود کہہ رہاتو بیٹا میں دنیا کے کاموں کے لیے وہ کیوں چھوڑ دوں ۔ “ اچھا باباجی اب میں چلتاہوں ۔ حمزہ گھر پہنچا اس کے امی اور ابو بھی آچکے تھے۔ ابو جی میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتاہوں۔ جی میرے لال ، حمزہ کے ابو نے پیار بھرے لہجے میں بیٹے کو جواب دیا ۔ ابو اگر ہمارا پیٹ تھوڑے سے کھانے سے بھر سکتا، تو ہم کیوں مختلف قسم کے کھانے بناتے ہیں۔ کیا مطلب ؟ میں کچھ سمجھا نہیں بیٹا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ … ابو جی میرا مطلب ہے ہمارے گھر میں روز وافر مقدار میں کئی قسم کے کھانے پکتے ہیں جبکہ ہم سب تو اس سب میں تھوڑا سا کھاتے ہیں باقی ضائع ہوجاتاہے ۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ ہم اپنی خوشیوں میں لوگوں کو شامل کرلیں۔ اس طرح سے کھانا بھی ضائع نہیں ہوگا ۔ اللّٰہ جی ثواب بھی دیں گے ۔ باورچی ٹیبل پر افطاری کا سامان لگانا شروع کر چکا تھا۔ آج سیٹھ خاور اپنے بیٹے حمزہ کی باتیں سن کر خوش ہو رہے تھے ۔
ہاں کیوں نہیں بیٹا !اچھا مسلمان تو وہی ہے جو اپنے دوسرے بھائیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرے۔ آج ایک معصوم بچے نے پھر سے سیٹھ خاور کو بیدار کر دیا تھا۔
سیٹھ خاور اور ان کابیٹا ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ نہر کناے اس وسیع کوٹھی کے لان میں چٹائیاں بچھائی جانے لگیں ۔ کوٹھی کے تمام نوکر اور سیٹھ خاور اکٹھے بیٹھ کر روزہ کے ہونے کے لیے انتظار کرنے لگے ۔
کچھ لمحوں بعد قریبی مسجد سے روزہ افطارکی دعا کی آواز آنے لگی ۔ ہاتھ دعا کے لیے آسمان کی طرف بلند ہونے لگے۔ آج حمزہ کی آنکھوں میں نمی بھی تھی ۔ مگر یہ تبدیلی کی نمی تھی ۔ جو سیٹھ خاور نے بھی محسوس کی تھی ۔