رات کے کوئی دو بجے ہوں گے جب فاتی کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔
’’یہ کیا!بجلی چلی گئی کیا؟ لیکن یہاں تو بجلی نہیں جاتی۔‘‘  نو سالہ فاتی نے سوچا۔ان کا گھر ایک مشہور سوسائٹی میں تھا جہاں سال میں شاذو نادر ہی بجلی جاتی تھی وہ بھی ایک آدھ گھنٹے کے لیے ۔ و ہ بمشکل اندھیرے میں چلتی ہوئی بلّو  کےکمرے میں گئی۔ اسے بہت ڈر لگ رہا تھا۔

’’بلّو! اٹھو ذرا دیکھو۔ بجلی چلی گئی ہے۔‘‘ گیارہ سالہ بلّو آنکھیں ملتا ہو ا اٹھ بیٹھا۔وہ بھی پسینے میں شرابوز تھا۔

’’اوہ! ٹھہرو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور سوئچ بورڈ کے سارے بٹن دبا دیے لیکن  نہ زیرو بلب لگا نہ ہی انرجی سیور۔ پنکھا بھی رکا ہو ا تھا۔

’’بجلی چلی گئی ہے یا پھر ہمارا فیوزاڑ گیا ہے۔‘‘ یہ کہہ بلّو کمرے سے باہر نکل آیا۔ لاؤنج میں گھپ اندھیرا تھا۔ امی ابو کی آنکھ ابھی نہیں کھلی تھی۔ اچانک فاتی زور سے چیخی۔

’’بلّو !۔۔۔ بھوت! بھوت!!‘‘

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’فاتی ! بلّو! چلو جلدی کرو وین آ گئی ہے۔ ‘‘ امی کچن سے بولیں تو دونوں نے دودھ کا آخری گھونٹ لیا اور بیگ سنبھالے کھڑے ہو گئے۔ پھر انہوں نے امی کو خدا حافظ کہا اور وین میں جا کر بیٹھ گئے۔

ان کے جانے کے بعد امی دروازہ بند کر کے اندر آئیں تو کھڑی رہ گئیں۔ آج پھر فاتی اپنے  کمرے کی لائٹ لگی چھوڑ گئی تھی۔ بلّو کے کمرے کاپنکھا بھی لگا ہوا تھا۔

’’نہ جانے ان کو کب سمجھ آئے گی۔ میں تو سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں۔‘‘ امی نے اداسی سے سوچا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’فاتی! آپ نے میز کا لیمپ بند کر دیا ہے؟ ‘‘ فاتی جیسے ہی پڑھائی کر کے باہر آئی تو امی نے پوچھا۔

’’اوہ! نہیں امی! ابھی کرتی ہوں۔ ‘‘ فاتی جلدی سے واپس گئی اور لیمپ بند کر دیا۔

’’یہ بلّو کہاں ہے؟‘‘ تھوڑی دیر بعد ابو نے پوچھا۔ وہ پودوں کو پانی دے رہے تھے۔ ’’اس سے کہو۔ نلکا بند کر دے۔ ‘‘

’’جی ابو!‘‘ فاتی نے کہا اور بلّو کے کمرے میں گئی تو واش روم کی لائٹ لگی ہوئی نظر آرہی تھی۔

’’ابو! بلّو واش روم میں ہے۔‘‘

لیکن تھوڑی ہی  دیر بعد بلّو میاں چھت سے چھلانگیں لگاتے ہوئے نیچے اترے۔

’’امی! آلو کے چپس بن گئے۔ بہت بھوک لگی ہے۔‘‘

’’بلّو!‘‘ یہ ابو کی غصیلی آواز تھی ۔ یقیناًانہیں فاتی کے ذریعے واش روم کی لائٹ لگی رہ جانے کی اطلاع مل چکی تھی اور اب بلّو کی شامت یقینی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ فاتی اور بلّو دونوں ہی بری عادت تھی۔ جس کمرے میں جاتے لائٹ یا پنکھا لگا چھوڑ آتے۔واش روم کی لائٹ بھی اکثر آن رہتی۔ پورچ میں کھیلنے جاتے تو وہاں بھی سوئچ بورڈ کے سارے بٹن دبا آتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ گیٹ کے اردگر د لگے بڑے بلب بھی سارا دن جلتے رہتے ۔

اس دن فاتی چھت پر گئی تو سیڑھیوں کا بلب لگا چھوڑ دیا۔ رات کو امی نے سب دروازے چیک کیے توسیڑھیوں والے دروازے کے نیچے سے ہلکی ہلکی سی روشنی نظر آئی۔

’’دیکھو میری بیٹی! بجلی بھی اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمارے روزمرہ کے بہت سارے  کام بجلی کی بدولت سرانجام پاتے ہیں۔ اگر ہم اس نعمت کی ناشکری کریں تو  اللہ پاک بہت ناراض ہوں گے۔‘‘

امی سیڑھیوں کا بلب بند کر کے آئیں اور فاتی کو سمجھاتے ہوئے بولیں۔

’’جی امی !‘‘ حسب معمول ایک زوردار جمائی لیتے ہوئے فاتی نے امی کی بات ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’امی یہ بجلی کب آئے گی؟‘‘ بلّو نے جھنجھلا کر پوچھا۔

’’آجائے گی بیٹا! انہوں نے بتایا تو ہے ۔ وہ ٹھیک کر رہے ہیں۔‘‘ امی نے جواب دیا۔

سوسائٹی کے مین گرڈ اسٹیشن میں کوئی خرابی ہو گئی تھی۔ اسے ٹھیک کرنے میں بیس سے چوپیس گھنٹے درکار تھے۔ اب گھر کے سارے کام رکے ہوئے تھے۔ یہ شکر تھا کہ اگلے دن اتوا ر تھا۔

’’امی! آج راشد کی سالگرہ ہے۔ میں نے وہاں جانے کے لیے کپڑے استری کے پاس رکھ دیے ہیں۔‘‘ بلّو نے امی کو بتایا تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں۔

’’بیٹا! بجلی نہیں ہے۔ آپ وہ نیلا سوٹ پہن جاؤ جو میں نے الماری میں لٹکا رکھا ہے۔‘‘

’’نہیں! مجھے یہ والا پسند ہے۔ بجلی کب آئے گی؟‘‘ بلّو یہ سوال کوئی بیسویں بار پوچھ رہا تھا اس لیے امی نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔

’’ میں نے نہانا ہے اور پانی نہیں آرہا ۔موٹر چلائیں ناں۔‘‘ فاتی واش روم سے چلا کر بولی۔

’’بیٹا! بجلی نہیں ہے۔ آپ آج نہ نہاؤ۔ جب بجلی آئے گی تب نہانا۔‘‘ امی نے سمجھایا تو فاتی منہ بنائے باہر آگئی۔

’’امی اتنی گرمی لگ رہی ہے۔ ہم باہر جائیں کھیلنے کے لیے؟‘‘ بلّو نے پوچھا تو امی نے اجازت دے دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات ہو چلی تھی اور بجلی کا نام و نشان نہیں تھا۔

’’کل بھی میں امی کے عبایا کو اندھیرے میں دیکھ کر ڈر گئی تھی۔ابھی پھر اندھیرا ہورہا ہے۔ بلّو! بجلی کب آئے گی؟‘‘ فاتی نے پوچھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا۔

’’ارےہاں! میری میڈم نے کل میتھس کا ٹیسٹ دیا ہوا ہے اور میں نے بالکل تیاری نہیں کی۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ فاتی پریشان تھی۔

’’ہاں ! میں نے خود آدھا ہوم ورک کیا تھاکہ بیٹری لائٹ کی چارجنگ ختم ہو گئی۔‘‘ بلو نے بھی اداسی سے بتایا۔

دونوں کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر بلّو نے کہا۔

’’فاتی! ہم نے  بہت بجلی ضائع کی ہے ناں۔ اسی لیے اللہ پاک نے ہمیں سزا دی ہے۔ دیکھو ایک بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کتنے کام رک گئے ہیں۔ پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں آرہا ہے نلکوں میں۔ امی  اندھیرے  میں کھانا بھی صحیح طرح نہیں پکا سکیں۔ ہم نے پڑھائی کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں کر سکے۔ ‘‘

’’اوپر سے گرمی! اف!!‘‘ فاتی نےماتھے پر سے پسینہ صاف کیا  ۔

’’ہاں مجھے لگتا ہے کل ہمیں بغیر استری کیے یونیفارم پہن کے جانا پڑے گا۔ میڈم تو ہمیں کلاس سے باہر کھڑا کر دیں گی بلّو۔‘‘ فاتی رو دینے کو تھی۔

اسی وقت بجلی آگئی۔

’’امی ! لائٹ آگئی۔ لائٹ آگئی۔‘‘ دونوں نے یکدم نعرہ مارا اور کمرے سے نکل آئے۔

امی ابو نے بھی الحمدللہ کہا۔ پھر بلو کہنے لگا۔

’’امی جان! ہمیں معاف کر دیں۔ اب ہم کبھی بجلی ضائع نہیں کریں گے۔غیر ضروری  بلب اور پنکھا ضرور بند کریں گے۔  ہمیں سمجھ آگئی ہے کہ یہ نعمت بہت قیمتی ہے اور اس کی ناشکری کرنے سے اللہ پاک ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘ بلّو سر جھکائے کہہ رہا تھا۔ فاتی بھی شرمندہ سی کھڑی تھی۔ امی نے دونوں کو گلے لگا لیا۔