’’ٹنگ ٹنگ!‘‘

 بیل بجتے ہی سارے بچے کلاس میں جانے لگے تو فاتی نے لنچ باکس بند کیا اور بلّو  سے کہا۔

’’بلّو  جلدی کرو ۔بریک ٹائم ختم ہوگیا ہے۔‘‘ بلّو  نے پانی کی بوتل کھولی ہوئی تھی۔

’’ہاں چلو ۔‘‘ بلّو نےتیزی کے ساتھ بوتل کا ڈھکن بند کیا اوردونوں کلاس روم کی طرف بھاگے۔

فاتی تیسری کلاس میں اور بلّو دوسری کلاس میں پڑھتا تھا ۔یہ دونوں کلاسوں کا گیمز کا پیریڈ تھا لیکن  موسلا دھار بارش کی وجہ سے بچوں کو کلاسوں میں ہی رہنے کا کہا گیا اور مس اسماء کو ان کی طرف بھیج دیا گیا۔ مس اسماء نے دوسری اور تیسری کلاس کو  ایک ہی کلاس میں اکھٹا کر لیا اور ان سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگیں۔

 

اچانک انہیں ایک خیال آیا ۔ ’’بچو! میں ایک سوال پوچھتی ہوں۔ جس نے اس کا صحیح جواب دیا، اس کے لیے باقی سب بچے تالیاں بجائیں گےاور اس کو انعام بھی ملے گا۔‘‘ مس اسماء نے کہا۔

اچانک بلّونے ہاتھ کھڑا کیا۔ مس اسماء نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو بلّو  کھڑے ہوکر کہنے لگا۔’’میڈم وہ انعام کیا ہو گا؟‘‘

سب نے بلّو  کی طرف گھور کر دیکھا ۔

مس اسماء بولیں۔’’ یہ تو آپ کو بعد میں ہی پتہ چلے گا۔‘‘

پھر انہوں نے کہا۔’’جی بچو ! پہلےآپ سب مجھے بتائیں کون کون نماز پڑھتا ہے؟ ‘‘

یہ سن کر اکثر بچوں نے فوراً ہاتھ کھڑے کر دیے ۔

 ’’اب میرا سوال یہ ہےچوری کرنا بہت برا کام ہے لیکن  بتائیں کہ نماز میں چوری کرنے والا کون ہوتاہے؟‘‘

سب بچے اس سوال سے چونک گئے اور ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔

مس اسماء نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’ آپ سب سوچیں تو ذرا ،جو جواب بھی ذہن میں آجائے وہ بتادیں ۔‘‘

دانی نےہاتھ اٹھایا تو سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔

’’ نماز میں چور وہ ہے جو اپنے پاس کھڑے ہوئے کی جیب سے پیسے چرا لیں۔‘‘ دانی نے کہا ۔

اتنے میں شانی نے بھی ہاتھ کھڑا کر دیا۔ مس اسماء نے اجازت دی تو  کہنے لگا۔’’نہیں نماز میں چوری کرنے والا وہ ہے جو دوسروں کے جوتے چرائے۔جس طرح ایک دفعہ چور نے میرے جوتے بھی چوری کیے تھے۔ تو میں بِنا جوتے مسجد سے گھر آیا تھا۔‘‘  اس کی بات پرسب ہنسنے لگے۔

بچو!آپ سب کی بات درست ہے کہ جو دوسروں کی کوئی چیز چرالے تو اس کو چور کہتے ہیں ۔لیکن یہ جواب درست نہیں کیاکوئی اور بتائے گا؟‘‘

اچانک  بلّو  نے فاتی کی طرف اشارہ کیا جو خاموش بیٹھی مسکرا رہی تھی۔اس کو یقینا ًجواب آتا تھا کیونکہ ہر رات سونے سے پہلے دادی جان فاتی اور بلّو  کو اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں ۔

’’جی ٹیچر میں بتاؤں ؟‘‘  فاتی نے کھڑے ہوکر کہا تو سب بچوں نے  حیرانی سے فاتی کی طرف دیکھا۔

’’میری دادی جان کہتی ہیں نماز میں چوری کرنے والا وہ شخص ہے جو رکوع اور سجدہ اچھی طرح نہ کرے۔‘‘

’’شاباش فاتی بیٹا!آپ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ سب بچے فاتی کے لیے تالیاں بجائیں۔‘‘

سب نے فاتی کے لیے زوردار تالیاں بجائیں۔

پھر دانی نے کھڑے ہو کر کہا۔’’ میڈم ہمیں فاتی کی بات سمجھ نہیں آئی۔‘‘ 

مس اسماء مسکرائیں اور کہنے لگیں۔’’میرے پیارے بچو! نماز میں چوری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ رکوع اور سجدہ صحیح طریقے سے ادا نہ کریں۔جیسے ہم میں کچھ لوگ جلدی جلدی نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رکوع  میں پوری طرح جھکتے ہی نہیں۔ سجدہ بھی تیز تیز کیا اور اٹھ کر سلام پھیر دیا۔ یہ اچھی بات نہیں۔ پیارے نبی ﷺ نے ایسا کرنے کو چوری کہا ہے۔یعنی  جو شخص نماز میں اچھی طرح رکوع اور سجدہ نہیں کرتا اس کا مطلب ہے کہ وہ نماز میں چوری کرتا ہے۔ میرے بچو! نماز پڑھنا تو اصل میں اللہ  پاک سے باتیں کرنا ہے۔ ہمیں آرام سے اور پورے دھیان کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ اچھی نماز سے اللہ پاک بہت ہی خوش ہوتے ہیں۔‘‘

مس اسماء کہہ رہی تھیں اور سب بچے سوچ میں گم تھے۔ ہاں!باقی سب بچوں کی طرح فاتی اور بلّو بھی عزم کر چکے  تھے کہ وہ اب نماز میں کبھی چوری نہیں کریں گے ، چاہے کچھ بھی ہو وہ  دھیان اور سکون کے ساتھ نماز پڑھا کریں گے۔