Khoshi Key lahar

           Print

امی جان نے کچن کی کھڑکی سے دیکھ لیا تھا۔ فاتی اور بلّو آج کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آرہے تھے۔

’’ضرور! یہ پھر کسی شرارت میں مصروف ہیں۔ ابھی جا کر دیکھتی ہوں۔ ‘‘ امی جان نے مسکراتے ہوئے سوچا اور کچن سے نکلنے لگیں۔ اسی اثناء میں ننھے کاشان کی رونے کی آواز آئی تو امی سب بھول بھال کر کمرے میں چلی گئیں۔

کچھ دیر بعد امی جان صحن میں آئیں تو انہیں چھوٹا سا پنجرہ نظر آیا جس میں ایک ننھی سی چڑیا چوں چوں کر رہی تھی۔ انہوں نے  کہا۔’’فاتی ! بلّو یہ کیا! آج آپ نے پھر ایک اور چڑیا پکڑ لی ہے۔۔۔

 

اوہ! یہ تو بہت چھوٹی سی ہے۔ بیٹا بہت بری بات ہے۔‘‘

’’امی پلیز!  بس کچھ دن رکھ کر چھوڑ دیں گے ناں۔ دیکھیں اس کی چونچ کتنی پیاری ہے۔‘‘ فاتی اور بلّو بہت خوش تھے۔ اتوار کا سارا دن  وہ  چڑیا کی خاطر تواضع کرتے رہے ۔

امی جان دادا جان کے پاس گئیں اور کہنے لگیں۔ ’’ابا جان! آپ ہی انہیں سمجھائیں ، میں تو ان کے شوق سے بہت تنگ آگئی ہوں۔‘‘

’’اچھا اچھابہو! میں دیکھتا ہوں۔ تم فکر نہ کرو۔اور جاؤ ان کے لیے اچھا سا سوپ تیار کرو۔‘‘ دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا تو امی کچن میں چلی گئیں۔

’’فاتی اور بلوّبیٹا! یہاں آؤ ۔میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں۔‘‘ دادا جان نے دونوں کو آواز دی ۔

’’جی داداجان! ضرور!!‘‘ دونوں بھاگے چلے آئے۔ دادا جان سے کہانی سننا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے  صحابہ (رضوان اللہ علیہم)  کے ایک قافلے نے سفر کی تھکان اتارنے کے لیے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ ساتھ ہی ایک درخت تھا جس پر چڑیا کا گھونسلہ تھا۔ اچانک ایک صحابی نے آگے بڑھ کر گھونسلے سے چڑیا کےد و بچے اٹھا لیے۔ اب تو چڑیا کی بے قراری دیکھنے والی تھی۔ اس نے صحابہ کے پڑاؤ کے اوپر بےچینی سے اڑنا شروع کر دیا۔ پیارے نبی ﷺ نے جب چڑیا کی بے تابی اور بے قراری دیکھی تو انہوں نے صحابہ کرام سے وجہ پوچھی۔ صحابہ نے بتایا کہ ایک ساتھی نے اس چڑیا کے دو بچے اٹھا لیے ہیں ۔ حضور ﷺ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ ﷺ بے قرار ہو گئے۔ آپ ﷺ نے ان صحابی کو حکم دیا کہ فوراً اس کےد ونوں بچے گھونسلے میں واپس ڈال آؤ۔ اب چڑیایوں پیارے نبی ﷺ کے گرد اڑنے لگی جیسے دل سے شکریہ ادا کر رہی ہو۔ بیٹا! پیارے نبی ﷺ صرف انسانوں ہی کے لیے بلکہ پرندوں کے لیے بھی رحمت اور محبت کا پیکر تھے ۔ آپ ﷺ سے بالکل گوارا نہیں ہوا کہ چڑیا کے بچوں کو اس سے جدا کر کے چڑیا کی مامتا کو تڑپایا جائے۔ ‘‘

فاتی اور بلّو سر جھکا کر بیٹھے تھے۔ لگتا تھا وہ گہر ی سوچ میں گم تھے۔ اتنے میں امی جان گرم سوپ لے آئیں تو دونوں سوپ پینے میں مصروف ہو گئے۔

اگلی صبح  فاتی اور بلّو سکول جانے سے پہلے صحن میں گئے اور چڑیا کا پنجرہ کھول دیا۔ اداس چڑیا میں تو خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ پھُر سےاڑ کر دیوار پر جا بیٹھی اور لگی چوں چوں کرنے۔

امی جان نے پنجرہ خالی دیکھا تو  مسکرانے لگیں۔ پھر وہ فاتی اور بلّوکے کمرے میں گئیں ۔

’’امی جان! اب ہم کبھی  کسی چڑیا کو نہیں پکڑیں گے۔‘‘ بلّو نے کہا اور فاتی نے اثبات میں سر ہلایا۔ امی جان نے دونوں کو سینےسے لگالیا۔ 

 


 {rsform 7}