بلو کافی دیر سے ہوم ورک میں مصروف تھا جب اچانک اس کی نظر گھڑی پر پڑی۔

’’اوہ! چھ بج گئے۔ میرے دوست انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘

’’امی جان میں نے  آدھاہوم ورک کرلیا ہے ۔اب میں کھیلنے جانا چاہتا ہوں ۔‘‘ بلو نے امی سے کہااور جلدی میں الٹی سیدھی کتابیں بیگ میں ڈالنے کی کوشش کی تو سب کتابیں زمین پر گر گئیں۔لیکن  بلو کو بہت جلدی تھی۔ وہ  شوز پہن کر کمرے سے باہر آ گیا۔

’’امی بقیہ ہوم ورک گھر آکر کرلوں گا۔کیا میں ابھی چلا جاؤں ؟ آج میرا میچ ہے ناں!‘‘

فاتی کمرے میں آئی تو کمرے کا برا حال تھا۔ اسے سخت کوفت ہوئی۔ وہ کچن میں آئی اور جھلا کر کہنے لگی۔ ’’امی جان! بلو آج پھر سب کچھ پھیلاکر باہر جارہاہے۔‘‘

 

 

اتنے میں بلو امی سے اجازت لے چکا  تھا۔اس نے فاتی کو شرارت سے منہ چڑایا اور باہر بھاگ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’واوووو ۔زبردست میراسامان تو خودبخود ٹھیک ہوگیا ہے۔اور یہ کیا!  میرا بیگ بھی تیار ہوگیا۔فاتی بہنا! کیا آپ نے میری جومیڑی بکس رکھ دی وہ مجھ سے ٹیبل کے نیچے گرگئی تھی۔‘‘ بلو میچ کھیل کر آچکا تھا اور اب فاتی کو تنگ کر رہا تھا۔ فاتی نے اس کے جانے کے بعد عادت سے مجبور ہر خود ہی چیزیں سمیٹنا شروع کر دی تھیں۔ پہلے اس نے بلو کا بستہ تیار کر کے رکھا۔ پھر میز  پر بکھری کتابیں سمیٹیں اور سلیقے سے جوڑ دیں۔ پھر وہ جھاڑو لے آئی اور بلو نے پنسلیں بنابنا کر جو کچرا بکھیرا تھا، وہ سب سمیٹ دیا۔

’’جی ہاں رکھ دی ہے لیکن اس میں دو سرخ  پنسلیں تھی۔ابو جی نے تو ایک پنسل دلائی تھی دوسری کہاں سے آئی؟ ‘‘ فاتی نے اس کے شرارت بھرے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

بلو نے فوراً کندھے اچکا کر کہا ۔’’ مجھے کیا پتہ کہاں سے آئی ؟ اچھا میں تو بہت تھک گیا ہوں،مجھے ابھی ہوم ورک بھی مکمل کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بلو کپڑے بدلنے چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’میڈم! میر ی سرخ پنسل گم گئی ہے۔ میرے ابو دبئی سے لائے تھے۔ اس کے اوپر بہت پیارا کارٹون بنا ہوا ہے۔مجھے لگتا کلاس میں ہی کسی کے پاس ہے۔‘‘ طاہر نے کھڑے ہو میڈم سیمی سے کہا۔ وہ بہت اداس تھا۔

’’کیوں بچو! جس کے پاس بھی طاہر کی پنسل ہے وہ طاہر کو دے دے۔ اور طاہر سےسوری کر لے۔ بس ! میں اسے کچھ نہیں کہوں گی۔‘‘

سب بچے خاموش رہے۔تو میڈم سیمی نے کہا۔

’’اچھا!  طاہر!آپ میرے ساتھ آئیں۔ ہم ایک ایک بیگ کی تلاشی لے لیتے ہیں۔‘‘

پھر سب بچوں کی تلاشی لیتے ہوئے میڈم سیمی بلو کے پاس آکر رکیں اور بولیں۔

’’بلو اپنا بیگ ذرا سامنے رکھیں ۔‘‘  بلو نے اپنا بیگ کھولا۔میڈم سیمی نے دیکھا۔اردو  کی کتاب کور سمیت پھٹ گئی تھی۔ کاپیاں بھی الٹی سیدھی رکھی تھی۔بیگ میں پنسل کا بہت سارا کچرہ  تھا۔ پہلے تو میڈم نے بلو کو بیگ گندہ رکھنے پر ڈانٹا۔ پھر انہوں نےاردوکی کتاب نکالی تو اس میں سے سرخ پنسل نکل کر نیچے گر گئی۔بلو ہکا بکا رہ گیا۔

’’یہ۔۔ یہ کہاں سے آئی؟‘‘

’’بلو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا آپ چوری کریں گے۔‘‘ میڈم نے کہا تو بلو روہانسا ہو گیا۔

’’نہیں میڈیم ! میں نے جلدی  میں طاہرکی پینسل اپنے بیگ میں رکھ دی تھی۔کل چھٹی کے ٹائم میں نے۔۔‘‘ بلو صفائی دے رہا تھا لیکن ظاہری بات ہے کوئی اس کی بات کا یقین کیسے کرتا۔ سرخ پنسل اسی کے بیگ سے نکلی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’امی! آپ یقین کریں میں نے پنسل چوری نہیں کی۔ مجھے تو یاد ہی نہیں تھا طاہر کی پنسل میرے پاس ہے۔میں نے اس سے تھوڑی دیر کے لیے لی اور پھر وہ میری اردو کی کتاب میں ہی رہ گئی۔‘‘

امی جان نے بلو کو پیار کیا اور بولیں۔’’کوئی بات نہیں بلو بیٹا! اصل میں آپ کتابیں دھیان سے نہیں رکھتے ہو۔ الٹی سیدھی رکھ دیتے ہو۔ کبھی کتابیں نیچے پھینک دیتے ہو۔ اگر ہم کتاب کا ادب نہیں کریں گے تو یہ ہم سے ناراض ہو جائیں گی۔‘‘

’’مجھے لگتا ہے امی ! کہ اردو کی کتاب نے بلو سے بدلہ لیاہے۔ہی ہی ہی !‘‘ فاتی نے ہنسی بمشکل چھپاتے ہوئے کہاتو بلو بھی کھسیاناہو کر ہنسنے لگا۔ یہ اور بات ہے کہ اسےواقعی لگ رہا تھا کہ کتابوں نے اس سے بدلہ لیا ہے! کیونکہ وہ اپنی کتابوں کو بالکل خیال نہیں رکھتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن،  بلو نے اپنا ہوم ورک مکمل کیا۔پھر اپنے بیگ میں سارا سامان صحیح صحیح رکھ کر بیگ کو میز پر رکھ دیا۔اور امی سے کھیلنے کی اجازت لے کر گیٹ کھولا تو دروازے پر بلو کے دوست منو اور ببلو کھڑے دیکھ کر بے ساختہ کہا ۔’’ تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘

ببلو نے کہا: آج ہم مل کر تمھارے گھر میں کھیلیں گے۔

’’کیا آج ہم تمھارے گھر کھیل سکتے ہیں ؟‘‘منو نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

’’کیوں نہیں میں تمھیں اپنے کھلونے دکھاتا ہوں۔ بہت مزا آئےگا۔‘‘

یہ کہہ کر تینوں کمرے کی طرف گئے ۔

 اچانک منو نے کہا۔’’ واہ بلو! تمھارا کمرہ تو بڑا صاف ستھرا  ہے۔ اس کا خیال تم خود رکھتے ہوں ناں؟‘‘

’’ جی بالکل! پہلے نہیں رکھتا تھا لیکن اب تو رکھتا ہوں!‘‘ بلو نے جوشیلے انداز میں کہا تو دروازے کے پیچھے کھڑی امی جان مسکرانے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارے بچو! آج سے ہم سب بھی پکا عزم کرلیں کہ اپنا بیگ پھینکیں گے نہیں۔اپنی کتابوں کی حفاظت کریں گے۔ ان پر قلم  سے نہیں لکھیں گے۔کتابیں ہمیں پڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ ہماری دوست ہوتی ہیں۔ اچھے بچے اپنے دوست کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔

 

{rsform 7}