جب چھٹیاں ہوئیں!

فاتی اور بلوّ بہت خوش تھے۔ آج ان کے اسکول کا آخری دن تھا۔ ان کو سکو ل سے پوری دس چھٹیاں مل گئی تھیں۔ تین چھٹیاں سپورٹس ویک کے آخر والی پھر ایک اتوار کو ملا کے اگلا پورا ہفتہ بڑی عید کی چھٹیوں کے لیے۔ وہ اسکول سے واپسی پر وین میں بیٹھے اپنے اپنے پلان بنا رہے تھے ۔

’’میں تو سارے جاسوسی ناول ختم کر دوں گی جو مجھے ناصر ماموں نے لا کر دیے تھے۔ ‘‘ فاتی نے تصور ہی تصور میں خود کو انسپکٹر جمشیدسمجھتے ہوئے کہا۔
وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کون کون سے پسندیدہ ناول محلے......

کی لائبریری سے منگواسکے گی۔ بلّو کا پروگرام ساری چھٹیاں خوب سارے کمپیوٹر گیمز کھیلنے کا تھا۔گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد جب سے اسکول کھلے تھے وہ بہت کم گیمز کھیل سکا تھااور اب وہ اپنی ساری حسرتیں پوری کرنا چاہتا تھا۔
’’اور میں ڈھیر ساری ویڈیو گیمز منگواؤں گا اور فہد کے ساتھ مل کر سار ا دن کھیلا کروں گا۔‘‘ وہ بھی بہت پرجوش تھا۔
جب وہ گھر پہنچے تو دونوں نے نعرہ لگایا۔
’’امی جان! چھٹیاں ہی چھٹیاں! یا ہو!!‘‘ پھر دونوں نے جلدی جلدی یونیفارم چینج کیا اور کھانا کھانے لگے۔ آج خلافِ معمول ان کو ذرہ برابر بھی نیند نہیں آرہی تھی۔ بلکہ وہ اگلی دس چھٹیوں کا سوچ کر بہت ہی فریش تھے۔
امی جان برتن سمیٹتے ہوئے سوچ میں گم تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ پچھلی چھٹیوں میں بچوں نے زیادہ وقت فضول کاموں میں ضائع کیا تھا اور آخر میں کار آمد اور روز مرہ کے کاموں کے لیے ان کے پاس وقت ہی نہیں بچتا تھا۔یہ وقت میں بے برکتی صرف اس لیے تھی کہ بچوں نے اپنی روٹین کونظر انداز کر دیا تھا۔
چھٹیوں کےپہلے دو دن تو یوں ہی گزر گئے۔ یعنی فاتی پوری رات امی جان سے چھپ کر ناول پڑھتی تو بلّو کابھی آدھے سے زیادہ دن اسکرین کے آگے گیم کھیلتے گزرتا۔
امی ابو کی ڈانٹ کے ڈر سے فجر کی نماز بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ پڑھنااور پھر دن چڑھے تک سوتے رہنا فاتی اور بلوّ نے اپنی عادت بنالی تھی۔ دن میں دیر سے اٹھنے سے ان لوگوں کا سر بھای رہتا،کسلمندی اور سستی چھائی رہتی اور طبیعت میں چڑچڑاہٹ رہنے لگی۔بات بے بات وہ آپس میں الجھتے اور لڑ پڑتے یا پھر بستر پر لیٹےسستی سے کروٹ بدلتے رہتے۔ فاتی مارے باندھے صفائی کرتی۔ کبھی کبھار تو کارپٹ پرویکیوم کرتے کرتے ادھر ہی سو جاتی تھی۔ بلّو بھی قریبی دکان سے سودا لاتے ہوئے خوب منہ بناتا۔
آخر امی کو ایک آئڈیا سوجھ ہی گیا اور انھوں نے دونوں بچوں کو بلایا۔ امی کی آواز سن کر فاتی نے بے زاری سے سوچا کہ ضرور امی کو آٹا گوندھوانا ہوگا مجھ سے اور وہ اس وقت بالکل بھی اٹھ کر جانے کو تیار نہ تھی کیونکہ اس کی جاسوسی کہانی انتہائی سسپنس بھرے موڑ پر آ گئی تھی۔ ادھر بلّو کا دل بھی امی کی آواز پر دہل گیا تھا کہ اس گرمی میں گیم چھوڑ کر اسے شاید بازار سے سودا لینے جانا ہوگا۔
منہ لٹکائے دونوں جب اپنی امی کے پاس پہنچے تو ان کی شکلیں دیکھ کر امی کو ہنسی آ گئی ۔ انھوں نے آرام سے بچوں کو ساتھ بٹھایا اور اپنے نئے پلان سے آگاہ کیا۔ بچے جوں جوں امی کی بات سنتے جا رہے تھے ان میں خوشی اور جوش بڑھتا جا رہا تھا۔
امی کے پروگرام کے مطابق کل سے فجر کی نماز کے بعد کوئی سوئے گا نہیں بلکہ ہر روز باری باری سب کی پسند کا ناشتہ بنا یا جائے گا ۔ناشتے سے پہلے  سامنے والے پارک میں جا کر سیر کریں گے ۔بچوں کو بھی یہ آئیڈیا پسند آیا۔ صبح جلدی اٹھ کر پکنک کرنے کے لیے رات سب ہی جلدی سونے لیٹ گئے۔ بلّو نے تھوڑے گیمز کھیلے اور فاتی نے اپنی نئی کہانی کل شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ غرض آج تھوڑی دیر بعد ہی فاتی اور بلو گہری نیند کے مزے لے رہے تھے ۔
اگلے صبح امی جان ، ابا جان اور دادو سب سامنے والے باغ میں گئے۔ یہاں تو سماں ہی الگ تھا۔ سورج کی کرنوں نے فرحت بخش ہوا کی ٹھنڈک اوڑھی ہوئی تھی۔ ایسے میں چڑیاں بھی اللہ کی حمد و ثناء کے بعد اب ایک درخت سے دوسرے درخت پر چہچہاتی اڑ رہی تھیں اور باغ کی دیوار پر گلہریاں پھدکتی نظر آ رہی تھیں۔ فاتی اپنی امی کے ساتھ ٹہلنے لگی تو بلّو کہاں پیچھے رہتا۔ دونوں نے امی اور دادو کے ساتھ ٹہلتے ٹہلتے جوگنگ شروع کر دی۔سب ہی فضا کی تازگی اپنے اندر اترتی محسوس کر رہے تھے۔ جب سورج تھوڑا اوپر آیا تو سب نے مل کر ناشتہ کیا ۔ آج امی نے فاتی کی  پسند کے آلو کے پراٹھے بنائے تھے۔
فاتی اور بلوّ نہ صرف آج تازہ دم تھے بلکہ حیرت انگیز طور پر ان کو نیند یا تھکن کا غلبہ بھی نہیں تھا۔ نتیجاً ان کو پورے دن میں اپنے مشاغل سے دل بھرنے اور گھرکے کاموں کے لیے بھر پور وقت ملا۔امی کے مختلف کاموں کو وہ بھاگ بھاگ کر پورا کرتے رہے۔ تمام دن کی مصروفیت کے بعد آج رات ان تینوں کو نیند بھی جلد آ لیا۔ گہری اور مکمل نیند لینے کی وجہ سے دوسری صبح وہ اور بھی تازہ دم اٹھے۔
صبح سویرے اٹھنے کی وجہ سے ان کی زندگی ایک روٹین میں آ گئی ۔ٹی وی یا کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھے رہنے اور اندھیرے کمرے میں لیٹے رہنے سے سر کا بھاری پن اور طبیعت کا چڑاچڑاپن بالکل ختم ہو گیاتھا۔ اب وہ روز سویرے باغ میں جا کر چہل قدمی کرتے، ساتھ ساتھ آپس میں دوڑ کے مقابلے، بیڈ منٹن کھیلتے اور اپنی پسند کا ناشتہ کرتے۔ اس طرح ان کی امی نےبچوں کی چھٹیوں کو نہ صرف پر لطف بنایا بلکہ ان میں نظم و ضبط اور وقت کے صحیح استعمال کی عادت بھی ڈالی۔اب فاتی اور بلّو اپنا ہر ویک اینڈ اسی طرح پھرپور طریقے سے گزارتے ہیں۔ امید ہے آپ کو بھی فاتی اور بلّو کی نئی روٹین پسند آئی ہو گی!

 


{rsform 7}