عائشہ نے نانا جان کو تکیہ رکھتے ہوے کہا : " آج آپ ہمیں کون سی کہانی سنائیں گے؟" نانا جان نے عمارہ اور محمد کو اپنے پاس بٹھاتے ہوے کہا :" میرے پیارے بچو ! آج میں آپ کو ایک سبق آموز کہانی سنانے والا ہوں۔ "
محمد خوشی خوشی جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر نانا جان کو دینے لگا :" بس نانا جان ہم سب سننے کے لئے
تیار ہو گئے ہیں۔"
" ٹھیک ہے بیٹا ! " نانا جان پانی پی کر تکیہ پر سہارا لگاتے ہوے کہنے لگے :
" میرے پیارے بچو! ١٠٩٥ ء کی بات ہے کہ ایک نیک فرمانبردار بچہ تحصیل علم کے لئے قافلے کے ساتھ بغداد روانہ ہوا ۔چلتے وقت ان کی والدہ محترمہ نے ٤٠ دینار انہیں دیے اور ساتھ میں یہ نصیحت کی : " بیٹا ! ہمیشہ سچ بولنا ، خواہ تمہیں کیسا ہی خطرہ کیوں نہ پیش آئے ۔"
اتفاق کی بات ہے اس قافلے پر راستے میں ڈاکووں نے حملہ کر دیا اور اہل قافلہ کا سارا مال لوٹ یا ، جب ڈاکو باری باری قافلے والوں کی تلاشی لے رہے تھے تو ان میں سے ایک ڈاکو نے بچے سے پوچھا : " اے لڑکے تمھارے پاس کیا ہے؟" فرمانبردار بچے نے جواب دیا : " میرے پاس ٤٠ دینار ہیں ۔" ڈاکو نے اسے مذاق سمجھا اور چھوڑ کر چلا گیا ۔بعد میں ایک اور ڈاکو آیا اس نے بھی وہی سوال کیا بچے نے پھر وہی جواب دیا "کہ میرے پاس ٤٠ دینار ہیں " وہ بچے کو پکڑ کر سردار کے پاس لے گیا ۔سردار نے بچے سے پوچھا : " وہ دینار کہاں ہیں ۔؟" بچے نے جواب دیا : " میری قمیص کے اندر سلے ہوئے ہیں ۔قمیص چاک کر کے دیکھا گیا تو واقعی اس میں ٤٠ دینار سلے ہوئے تھے ۔اس پر سردار نے حیران ہو کر کہا : " تم نے اس دولت کو چھپانے کے لئے جھوٹ کیوں نہ بولا ؟" بچے نے معصومیت سے کہا : " میری والدہ نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولو۔ اس لئے میں ان کی خلاف ورزی نہ کر سکتا تھا ۔" یہ جواب سن کر سردار کے دل پر بے حد اثر ہوا ۔اس نے سوچاکہ یہ فرمانبردار بچہ ماں کا اتنا فرمانبردار ہے اور میں اپنے الله کا اس قدر نافرمان ہوں۔ اسی وقت توبہ کی اور ساتھیوں سمیت راہزنی کے پیشے کو ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا۔
دیکھو میرے پیارے بچو ! اس ایک معصوم بچے کے سچ کی وجہ سے بڑے بڑے ڈاکو رہ راست پر آ گئے اور وہ بچہ پھر الله کا ولی بنا۔‘‘
عمارہ نے بڑی بے چینی سے پوچھا :
" نانا جان آخر وہ نیک و فرمانبردار بچہ کون تھا ؟ " نانا جان نے عمارہ کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھ کر کہا : " وہ الله کے بزرگ ولی الله حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانی رحمہ الله تعالیٰ تھے جو بچپن میں الله کے ولیوں ایسی صفات رکھتے تھے اور آخر تک دین اسلام کو بلند کیا ان کے ہاتھ پہ ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
بچو ! اس قصہ کا مقصد یہ تھا کہ سچ میں برکت اور نجات ہے سچ بولنے والے کو کبھی نقصان نہیں پہنچتا ۔" دادا ابا خاموش ہوئے تو تینوں بچوں نےایک ساتھ کہا :" ہم بھی ہمیشہ سچ بولیں گے کیونکہ سچ میں برکت ہے ۔" نانا جان مسکرا دیے۔
{rsform 7}