مسز سعید لمبی سی گاڑی سے اتریں۔  گھر میں داخل ہوتے ہی ملازمہ سے بولیں کہ جلدی سے کھانا میز پر لگا دو پھر مجھے اپنی ایک دوست کے گھر جانا ہے۔

 اتنے میں فیصل جو ان کا اکلوتا بیٹا تھا لاؤنج میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا دوست عمر بھی تھا۔

 عمر کو دیکھتے ہی مسز سعید کا منہ بن گیا۔ وہ فیصل کے غریب دوستوں کو بالکل پسند نہیں کرتی تھیں۔

’’ خیریت ہے عمر ! کیسے آنا ہوا؟   فیصل! میں نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ جو بھی بات ہو تم لوگ یونیورسٹی میں ہی کرلیا کرو۔یوں ان ۔۔ کو گھر لانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘مسز سعید کے لہجے میں واضح حقارت تھی جس کو عمر نے بری طرح محسوس کیا۔
’’ ماما عمر کو کچھ کام ہے وہ اس لیے میرے ساتھ چلا آیا ہے۔‘‘ فیصل کو ماما کی ناپسندیدگی کا اچھی طرح علم تھا۔ اس لیے ہچکچاتے ہوئے بولا۔ ’’عمر کو کچھ سافٹ وئیر چاہیے تھے جن کی سی ڈی میرے پاس ہے۔ وہی دینی تھی۔‘‘

مسز سعید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کھانے میں مصروف ہو گئی تھیں۔ لیکن ان کے ماتھے پر پڑے بل بتا رہے تھے کہ انہیں عمر کا یوں چلے آنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ بھئی  گیٹ سے ہی دے دیتے۔ اندر لانے کی کیا ضرورت تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی وہ سوچ رہی تھیں۔ کتنی مرتبہ سمجھایا ہے اس لڑکے کو کہ دوست اپنی حیثیت کے مطابق بنایا کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح دن گز رتے چلے گئے۔ ایک دن فیصل جب یونیورسٹی نہیں آیا ۔اس دن بہت اہم ٹیسٹ تھا۔

عمر نے فیصل کو فون کیا اور پوچھا۔’’ یار خیر تو ہے تم آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’ رات میں ابو کی اچانک بہت طبیعت خراب ہوگئی تھی ۔اس لیے ابو کو لے کر ہسپتال میں ہوں اور رات سے نہ جانے کتنے ٹیسٹ ہوگئے ہیں مگر ڈاکٹر کچھ بتاتے ہی نہیں ہیں کہہ رہے ہیں کہ کچھ اور ٹیسٹ ہوں گے ۔‘‘
یہ سن کر عمر کی نرم دل طبیعت پریشان ہو گئی۔ ’’اچھا  تم پریشان نہ اللہ ضرور کرم کرے گا اور فون بند کرو ۔میں تمہارے پاس آتا ہوں۔‘‘  اس نے کہااور اللہ حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
عمر جیسے ہی ہسپتال میں داخل ہوا۔ فیصل کا تو فکر مند چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ خیر نہیں ہے۔

’’ کیا کہا ڈاکٹر صاحب نے فیصل ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
فیصل نے رونے والی آواز میں بولا ۔’’ یار تمھیں تو پتہ ہے کافی عرصے سے بابا بیمار تھے۔ کل رات زیادہ طبیعت خراب ہوئی تو ہم فوراً ہسپتال چلے آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ابھی بلا کر تفصیل سے بتایا ہے کہ میرے ابو کے دونوں گردوں میں  کافی خرابی ہوگئی ہے ۔اس لیے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ان کو فوراً ڈائلیسز مشین پر ڈال دیا گیا ہے۔ ابھی تو ہفتے میں دو دفعہ ڈائلیسز کریں گے مگر مکمل علاج یہ ہی ہے کہ ان کا گردہ تبدیل کردیا جائے۔‘‘فیصل نم آنکھوں کے ساتھ بتار ہا تھا۔
’’ فیصل تم خود کو سنبھالو ورنہ ہم انکل کا خیال کیسے کریں گے اور آنٹی کو بھی بہت طریقے سے یہ سب بتانا ہوگا اور تم سب سے پہلے تو انکل کے بھائی کو بھی اطلاع کردو۔‘‘ عمر نے  تو فیصل نے بتایا کہ میں نے ان کو صبح ہی فون کردیا تھا۔ تایا جان اور چاچو نے لاہور سے فلائیٹ لے لی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب سوال تھا کہ کس کا گردہ فیصل کے بابا سعید صاحب  کو لگایا جائے۔ فیصل نے اپنے آپ کو پیش تو کیا لیکن اس کا بلڈ گروپ میچ نہیں کرتا تھا۔
سعید صاحب کے جب بھائی آئے تو ان کے سامنے یہ ماجرا رکھا گیا ۔ تایا ابو نے تو فوراً کہہ دیا کہ میرا ہائی بلڈ پریشر  مجھے اجازت نہیں دیتا اور چاچو تو تھے ہی شوگر کے مریض ان کا تو لے ہی نہیں سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب ہسپتال کے لیونگ روم میں پریشان بیٹھے تھے۔ مسز سعید کا تو بُرا حال تھا ۔

’’میں نے سوچ لیا ہے۔ امی سے بات بھی کر لی ہے۔  میں انکل کو گردہ دوں گا۔‘‘ کافی دیر بعد عمر نے کہا۔

سب حیران رہ گئے۔ فیصل کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ عمر اس حد تک اس کی مدد کرے گا۔

 ’’آنٹی میرے پاس دولت نہیں مگر انسانیت ضرور ہے میں بھی آپ کا بیٹا ہوں۔‘‘ عمر نے مسز سعید کے حیران چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو مسز سعید نے روتے ہوئے عمر کو گلے سے لگالیا۔
اللہ نے سب کی دعائیں سن لیں اور ایک مہینے کے اندر ہی سعید صاحب کو عمر کا گردہ لگا دیا گیا اور سعید صاحب روبہ صحت ہونے لگے۔ مسز سعید نے جب ساری بات سعید صاحب کو بتائی تو انہوں نے کہا۔’’ دیکھو بیگم! میں تم سے ہمیشہ کہتا تھا کہ  یہ بنگلہ ، گاڑی ، دولت ، امیر غریب کچھ نہیں ہوتا ۔بس انسان میں انسانیت ہونی چاہیے ۔ہمیں نہیں معلوم ہمارا رب کب کس سے کون سا کام لے لے۔ کبھی بھی اللہ کی مخلوق کو حقیر نہ جانو۔‘‘

’’ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میری آنکھوں پر پٹ بندھ گئی تھی۔ میں غلط تھی۔ واقعی انسان کا دل بڑا ہو نا چاہیے۔ دولت تو آنی جانی چیز ہے۔اب میرے لیے فیصل اور عمر دونوں برابر ہیں۔ میں نے اس اتوار کو عمر کے سب گھر والوں کی دعوت بھی رکھی ہے۔‘‘ مسز سعید شرمندہ سے لہجے میں کہ رہی تھیں تواندر آتے ہوئے فیصل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خوشی کے آنسو!