شدید گرمیو ں کے دن تھے۔ ابھی سکول میں چھٹیاں ہونے میں کچھ دن باقی تھے۔ بیلا اپنا سکول کا بستہ اٹھائے ہوئے تھکے ہوئے قدموں سے گھر کی طرف جانے والی راہ پر سر جھکائے جا رہی تھی۔ سر پر رکھی ہوئی ٹوپی اسے دھوپ سے بچانے کو ناکافی تھی۔ لیکن اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اسی شوق میں وہ گھر سے اتنی دور واقع سکول پیدل چل کر آتی جاتی تھی۔ پانی کی بوتل میں تھوڑا سا پانی باقی تھا۔ بیلا سخت پیاس محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اس نے سوچا کہ چند قدموں پر واقع جو برگد کا بوڑھا درخت ہے وہ اس کے نیچے تھوڑی دیر رک کر پانی بھی پی لے گی اور درخت کی چھاؤں میں تھوڑی دیر آرام بھی کر لے گی۔ وہ درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئی اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اورجیسے ہی پانی پینے لگی اسے ایک آواز سنائی دی۔

اچھی لڑکی تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دو۔ میں صدیوں سے پیاسا ہوں بیلا نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اردگرد کوئی بھی نہ تھا مگر وہ ڈری نہیں۔ کیونکہ امی نے اسے بتایا ہو ا تھا کہ بچوں کو ہمیشہ بہادر بن کر رہنا چاہیے۔ اس نے کہا کون ہے؟ کس نے پانی پینا ہے؟ جواب میں آواز آئی میں پیاسا ہوں مجھے پانی دو۔ درخت بول رہا تھا۔ بیلا کو بہت پیاس لگی ہوئی تھی۔ ابھی گھر دور تھا۔ اور دھوپ بھی سخت تھی۔ مگر بیلا بہت ہمدرد بچی تھی اس نے اپنی پرواہ نہ کی اوردرخت کے تنے میں بوتل میں پڑا پانی الٹادیا۔ تھوڑا ساپانی مٹی میں جذب ہوتے ہی غائب ہو گیا۔ بیلا شرمندہ ہو کر بولی۔ پیارے درخت۔ معاف کرنا آج تھوڑا سا پانی تھا میں کل تمہارے لیے زیادہ پانی لے کر آؤں گی۔ یہ کہہ کر بیلا نے بستہ اٹھایا۔ درخت کو خدا حافظ کہا۔ اور گھر کو چل دی۔

اگلی صبح اس نے چپکے سے ایک پانی کی بوتل اپنے بستے میں ڈال لی۔ بستہ بوتل کے وزن سے کافی بھاری ہو گیا تھا۔ مگر بیلا نے اسے خوشی خوشی اٹھائے رکھا۔ وہ چھٹی کا انتظار کرتی رہی جیسے ہی ٹن ٹن کی آواز آئی وہ تیزی سے سکول سے نکلی اور اس درخت کی طرف چل پڑی۔ وہاں پہنچ کر اس نے انتظار کیے بغیر سارا پانی درخت کے تنے کو پلا دیا۔ پانی زمین میں جذب ہوتے ہی ایک دم سے خوشبو پھیل گئی۔ اور اس جگہ سے ایک سفید خوبصورت اور چمکتے ہوئے پروں والی ننھی سی پری بیلا کے سامنے آ گئی۔ بیلا اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے دادی اماں سے آج تک جو پریوں کی کہانیاں سنی تھیں ۔ آج وہ پری واقعی اس کی نظروں کے سامنے آ گئی تھی۔ بیلا نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے یہ یقین کرنا چاہا کہ کہیں وہ کوئی خوبصورت خواب تو نہیں دیکھ رہی۔ پری بیلا کی اس معصوم حرکت پر زور سے ہنس پڑی۔ تو بہت سے سفید خوبصورت پھول ادھر ادھر بکھر کر گر پڑے۔ بیلا جلدی سے انہیں چننے لگی۔

پری بولی ننھی بچی تم کون ہو۔ بیلا نے اپنا نام بتایا۔ اور پوچھا پری آپ پرستان سے اس دنیا میں کیوں آ گئی ہیں ؟ پری بولی۔ مجھے انسانوں کی دنیا دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جس طرح آپ لوگوں نے پرستان کے قصے سن رکھے ہیں اسی طرح ہمیں بھی اس دنیا کے کئی قصے سنائے گئے ہیں بس پھر میں اس دنیا میں آ گئی۔ لیکن پیاری گڑیا مجھے بہت افسوس ہے کہ میں جو قصے سن کراس دنیا میں آئی تھی وہ سب جھوٹے نکلے۔ چند ہی دنوں میں یہاں سے بیزار ہو چکی ہوں ۔ اور اب اپنے پرستان واپس لوٹ جاؤں گی۔ پری کے خوبصورت چہرے پر اداسی سی اتر آئی تھی۔ بیلا سے پری کی اداسی دیکھی نہ گئی۔ وہ بولی آپ نے ایسا کیا دیکھ لیا ہے۔ جو آپ اداس ہو گئی ہیں۔ پری بولی۔ کاش میں تمہیں پرستان لے جاتی۔ وہاں جا کر تمہیں میری اداسی کا سبب معلوم ہو جاتا کیا تم میرے ساتھ پرستان چلو گی؟ بیلا پری کی دعوت پر غور کرنے لگی۔ پرستان جانے کا خیال ہی اتنا خوبصورت تھا کہ بیلا انکار نہ کر سکی۔ دونوں میں یہ طے پا گیا کہ پری بیلا کو ایک رات کے لیے پرستان کی سیر کروائے گی۔ صبح ہوتے ہی وہ بیلا کو چپکے سے واپس چھوڑ جائے گی بیلا پری سے ساتھ چلنے کا وعدہ کر کے خوشی خوشی گھر چلی گئی۔

رات کو بیلا اپنی امی کو خدا حافظ کہہ کر جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ آج اس سے پری کا انتظا ر مشکل ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ہی اسے اپنے کمرے کی کھڑکی کھلتی ہوئی محسوس ہوئی خوشبو کے جھونکے کے ساتھ ہی پری کمرے میں آ گئی۔ اس نے بیلا کی طرف ایک خوبصورت سفید پریوں والا فراک بڑھایا۔ پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی جادو کی چھڑی کو گھما کر بیلا کی طرف کیا تو بیلا پریوں والے لباس میں ملبوس ہو گئی۔ پری نے بیلا کے سر پر خوبصورت سا تاج پہنایا۔ اس کے ہاتھ میں ستارے والی چھڑی تھمائی۔ بیلا نے آئینے میں خود کو دیکھا تو حیران رہ گئی وہ سچ مچ کی ایک ننھی سی خوبصورت پری معلوم ہوتی تھی۔ پری نے بیلا کو خوشبو لگائی اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے آنکھیں بند کرنے کو کہا۔ تھوڑی دیر بعد بیلا کو احساس ہونے لگا کہ جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہی ہو۔ اس نے چپکے سے آنکھیں کھولیں اور ڈر گئی۔ وہ واقعی ہوا میں محو پرواز تھی۔ ستاروں کے پاس سے گزرتی ہوئی پرستان کی طرف جا رہی تھی۔ بیلا نے خوف کے مارے پری کا ہاتھ اور بھی مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پری بیلا کی اس حرکت پر مسکرا دی بہت سے پھول دوبارہ ادھر ادھر بکھر کر گرنے لگے۔ بیلا اب آنکھیں کھو ل لو۔ تھوڑی دیر بعد ہی ہم پرستان میں پہنچنے والے ہیں۔ تم نے سب کو یہی بتانا ہے کہ تم بھی ایک پری ہو۔ بیلا نے غور سے پری کی بات سنی۔

پرستان شروع ہوتے ہی ہر طرف سے خوشبوئیں آنی شروع ہو گئیں۔ بیلا کو وہ خوشبوئیں بہت بھلی معلوم ہو رہی تھیں ۔ پرستان کی ساری زمین پھولوں کی پتیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ سرسبز خوبصورت لمبے لمبے درخت اتنے خوبصورت تھے کہ انسانوں کی دنیا میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پری یہ کیسے درخت ہیں ؟ یہ اتنے خوبصورت کیسے ہیں ؟ بیلا سے پوچھے بنا نہ رہا گیا۔ پیاری بیلا۔ یہ وہی درخت ہیں جو تمہاری دنیا میں بھ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور انسانوں کو ایک ہی جیسی چیزیں دی ہیں۔ یہاں سے میں تمہیں اپنی وہ اداسی کی وجہ سمجھانا شروع کرتی ہوں۔ جو انسانوں کی دنیا میں جا کر مجھے مایوس کر گئی ہیں۔ درخت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ انسان ان کی بالکل حفاظت نہیں کرتے۔ سرسبز درختوں کو بیدردی سے کاٹ کر جلا دیتے ہیں۔ جس برگد کے درخت کے نیچے ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ نجانے کب سے پیاسا تھا۔ لیکن کبھی کسی نے یہ خیال نہیں کیا کہ انہیں بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی ہماری طرح جاندار مخلوق ہیں۔ بچوں کو میں نے پھول توڑتے اور پھر پاؤں کے نیچے مسلتے ہوئے دیکھا ہے ٹہنی پر لگے ہوئے خوش رنگ خوشبودار پھول کتنے خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ مگر جب ان کو نوچ کر پھینک دیا جاتا ہے تو ان کو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔ یہ کبھی کسی نے نہیں سوچا۔ بیلا کو پری کی اداسی سچ معلوم ہونے لگی۔ آؤ بیلا۔ باغ میں چلیں۔ بیلا پری کے ساتھ آگے بڑھی۔ تمام راستے بڑی خاموشی تھی۔ کچھ دیر بعد ایک بوڑھا جن نظر آیا۔ پری نے اسے سلام کیا اوراس کا حال پوچھا۔ بیلا نے پوچھا؟ پری یہ آپ کے کیا لگتے ہیں ؟ پری ہنس پڑی اور بولی بیلا میرا ن سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ مگر وہ اس پرستان کے رہنے والے ہیں۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے ساتھ رہنے والیسب لوگوں کا خیال رکھیں۔ بیلا کو یاد آ گیا کہ ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک بوڑھے بابا جی رہتے ہیں۔ ساری رات اکیلے کھانستے رہتے ہیں۔ بیلا کے گھر میں ان کی کھانسی کی آواز تو آ جاتی ہے۔ یقیناً کئی لوگوں کو اس بیمار بابا جی کی بیماری کے متعلق علم ہو گا۔ لیکن کبھی کسی نے ان کا حال تک معلوم نہیں کیا بیلا کو اندر ہی اندر شرم محسوس ہونے لگی۔

(جاری ہے)