"تمہاری  ہمت کیسی ہوئی  میرے بیٹ  کو ہاتھ لگانے کی ، تمہیں پتہ  ہے  یہ کتنا مہنگا بیٹ  ہے۔  ماموں جان  نےآسٹریلیا  سے میری برتھ ڈے  پر گفٹ بھیجا  ہے اور تم اسے خراب  کرنا چاہتے ہو ۔؟  تمہاری اوقات  بھی ہے  ایسا  بیٹ  خریدنے کی؟  آئندہ اگر  میری  کسی چیز  کو ہاتھ لگایا   تو تمہارے  ہاتھ توڑ دوں گا میں ، دفع  ہو  جاؤ  اب یہاں سے۔ "

ارحم انتہائی  حقارت  سے مالی بابا کے  بچے کو ڈانٹ رہا تھا حالانکہ  بے چارے بچے نے  بس  اس کے نئے بیٹ  کو بس چھوا  ہی تھا  ،لیکن  ارحم نے  انتہائی  بری طرح اس کو جھڑک  دیا۔

بیچارہ آٹھ سالہ  ناصر روتے ہوے اپنے کوارٹر  کی طرف بھاگ گیا۔

 

"ارحم بیٹا ! ادھر آئیے میرے پاس! "  دادا جان  جو اپنے کمرے  کی کھڑکی  سے  اس پورے واقعہ  کو دیکھ چکے تھے۔  انہوں ارحم  کو بلایا تھا  ۔

" جی دادا جان آپ نے بلایا تھا  ؟ " ارحم فورا  ً ان کے کمرے  میں داخل ہوا تھا۔ 

" جی ہاں میں نےآپ کو  بلایا تھا  ۔ادھر کرسی پر بیٹھیں اور مجھے بتائیں  کہ آپ نے  ناصر  سے اتنی بدتمیزی  سے بات

کیوں کی ؟" دادا جان  کافی  غصے میں  لگ رہےتھے۔ 

" داداجان  بدتمیزی  میں نے نہیں  اس جاہل ناصر  نے کی ہے  ۔میرے  نئے  بیٹ  کو اٹھا  رہا تھا  ۔آپ  جانتے ہیں   وہ کتنا مہنگا  بیٹ  ہے  ۔اس  سے پہلے آپ  کو یاد ہو گا  کہ پاپا  نے مجھے اتنی خوبصورت ڈائری بھجوائی تھی   اوراس بدتمیز  نے  اس ڈائری  پر چائے گرا دی تھی  اور آپ  نے مجھے  جو پنسل باکس  دیا تھا  وہ  بھی اس  نے گرا کر  توڑ  دیا تھا ۔"  ارحم منہ پھلا ئے خفگی سے کہہ رہا  تھا۔

" ارحم آپ اچھی  طرح جانتے ہیں وہ سب ناصر  نےجان بوجھ کر نہیں  کیا تھا ۔ وہ ابھی ابھی آیا ہے ہمارے گھر۔ بہت تمیز دار بچہ  ہے ۔"

" دادا جان آپ خوامخواہ  ناصر  کی حمایت   کر رہے   ہیں  اگر  وہ اتنا   ہی تمیز دار ہوتا تو میری چیزوں کو بغیر  اجازت ہاتھ نہ لگاتا۔" ارحم منہ  بناتے ہوے  کہنے لگا۔

"بیٹا بات یہ ہے کہ  اگر وہ آپ سے  اجازت لیتا  تو آپ اس  کو  جازت نہ دیتے  بلکہ  اسی طرح  جھڑک دیتے جیسے ابھی  تھوڑی دیر پہلے جھڑکا ، ٹھیک کہہ  رہا ہوں نا میں ؟ " داد ا  جان  گہری نظروں  سے  ارحم کو  دیکھتے ہوئے بولے ۔

 "وہ داداجان ... ! " ارحم  سے کوئی جواب نہ  بن  پڑا تو شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

" بیٹا  ناصر  تو بہت چھوٹا  بچہ  ہے ۔ جب وہ  کوئی نئی  چیز دیکھتا ہے  تو  اس  کا بھی  دل چاہتا  ہے  کہ وہ بھی ان سے کھیلے  اور ان کو استعمال   کرے   اور آپ جانتے  ہیں ان کے ماں باپ کتنے غریب ہیں ۔وہ  اس کو ایک معمولی  قیمت کا کھلونا  لے کر نہیں دے سکتے کجا کہ   اتنے مہنگے کھلونے  اور چیزیں لے کر دیں  ۔ تو جب  بیچارے بچے  کے پاس کوئی کھلونا  نہیں  ہوتا  تو وہ آپ  کے کھلونے تو دیکھے گا  ہی  نا !  اگر  آپ اس کو اپنے  کھلونوں سے کھیلنے دیں گے  تو وہ کبھی  آپ کے کھلونوں اور  چیزوں کو بغیر  اجازت  ہاتھ  نہیں لگائے گا۔   

ارحم بیٹا !  آپ اس کو اپنے کچھ کھلونے بابا جان سے پوچھ کر دے دیں۔ مجھے معلوم ہے  آپ کے بابا منع نہیں کریں گے۔ اور اپنا دل بڑا کریں ۔جب آپ  اس کو اتنے سخت الفاظ میں  ڈانٹتے   ہیں تو اس کا  دل کتنا دکھتا ہو گا ؟   اور آپ کو یقینا  پتہ  ہے  کسی کا دل  دکھانا  کتنا بڑا گناہ ہے  الله تعالی ایسے انسان کو سخت نا پسند  فرماتے  ہیں   جو دوسرے انسانوں کو تکلیف دیتے ہیں۔ ویسے بھی ارحم بیٹا  آپ  کے نام کا مطلب ہے " بہت زیادہ رحم  کرنے والا !" دادا جان مسکراتے ہوئے سمجھارہے تھے۔

"آپ صل  اللہ علیہ  وسلم  کے خادم حضرت  انس بن مالک رضی الله عنہ  کا فرمان بھی آپ  کو  یاد ہو گا  کہ  : "  میں نے  بچوں پر اتنی شفقت  کرتے ہوئے  کسی کو نہیں  دیکھا  جتنا کہ رسول  صل الله  علیہ  وسلم  بچوں  پر شفقت  فرمایا  کرتے تھے  ۔"

(صحیح مسلم )

"داداجان!"  ارحم کا شرمندگی سے  جھکا  ہو ا تھا۔

" مجھے معاف کر دیجئے  دادا  جان ! میں  بہت خود غرض  ہو گیا تھا  ۔مجھے ناصر  کے ساتھ ایسا رویہ  نہیں رکھنا چاہئے  تھا  ،لیکن  آپ  فکر نہ کریں  میں ابھی ناصر  سے مافی مانگتا ہوں  جا کر ، اور آئندہ  سے اسے  اپنے  ساتھ  ہر کھیل  میں  نہ صرف شامل کروں گا  بلکہ  میں  اپنے آدھے  کھلونے ناصر کو گفٹ  کروں گا  تاکہ اس کو احساس  کمتری نہ ہو ۔"

 ارحم جوش سے تمتماتے  چہرے  کے  ساتھ اپنا ارادہ بتا رہا تھا   ۔ دادا جان شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔