Zaroor amal kru gi

اتوارکا دن تھا۔ فاتی نے کھیلنے کی غرض سے ابھی کھلونے جوڑے ہی تھے کہ اچانک آپی کی آواز آئی ۔

’’فاتی! فاتی!بہنابات سنو ناں!‘‘
’’جی آپی!‘‘
’’میری پیاری سی بہنا جلدی سے جاؤ اور میری سہیلی حمیراکو یہ رسالہ تو پکڑا آؤ ۔‘‘ آپی نے حکم دیا۔
’’اووں ..آپی ! میں کھیلنے لگی تھی۔ ‘‘ فاتی منمنائی ۔
’’ایک منٹ لگے گابس ۔گڑیا جاؤ ناں!‘‘ آپی نے پچکاراتوفاتی نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔جاتے آتے تو دس منٹ لگ ہی گئے۔
واپس آ کرفاتی پھر کھلونوں میں مصروف ہوگئی۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ آپی پھر فاتی کو پکارتے ہوئے آن وارد ہوئیں۔
’’فاتی بہناجلدی سے میرابلیک جوتا تو ڈھونڈلاؤ۔ مجھے ٹیوشن کے لیے دیر ہو رہی ہے ۔شاباش !‘‘

فاتی اٹھنے ہی والی تھی کہ بلو منہ بنا کر بولا۔’’اب کی بار تم نے دیر کی تو کھیل ختم کردوں گا پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے جانا ہے۔‘‘ فاتی نے دوڑ لگادی لیکن واپسی تک بلو ناراض ہوچکاتھا۔
’’سوری نا بھیا!وہ آپی۔۔۔!‘‘ ۔وہ آنکھوں میں آنسو لیے کان پکڑے کھڑی تھی کہ باباجانی آ گئے۔
’’کیابات ہے بیٹا؟ایسے کیوں کھڑے ہو ۔‘‘انہوں نے فاتی کے سر پر دست شفقت پھیراتو فاتی نے ساری کہانی کہہ ڈالی۔
’’اوہ بیٹاآپ پہلے کہہ دیتے یا تھوڑاساانتظار کر لیتے۔‘‘ انہوں نے آپی سے کہا۔
’’آپ نے انہیں ہی کیوں آپی بنایامجھے ہی بنادیتے سکون سے کھیل تو لیتی۔‘‘ وہ شکوہ کناں ہوئی تو بابا مسکرا دیے۔
’’چلو بیٹاآج تو گزاراکرو۔ کل سے آپ آپی بن جانا۔‘‘
’’ہیں! واقعی باباجانی!!‘‘ فاتی خوشی سے اچھل ہی پڑی۔
’’ہاں بیٹا!سب سن لیں۔ کل سے فاتی آپی کی جگہ سنبھالیں گی۔‘‘ باباجانی نے فیصلہ سنایا۔
فاتی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ۔اسکے دماغ میں آپی کا عہدہ سنبھالنے کے بعدسلطنت کے فرائض کی ادائیگی کی زبردست پلاننگ شروع ہوچکی تھی۔  رات کا کھانا بھی ٹھیک سے نہ کھا سکی۔
’’ہوں! آپی رات کو کیا کیا کام کرتی ہیں ۔ سب کے یونیفارم پریس کرتی ہیں۔ جوتے پالش۔بیگ تیار۔۔‘‘ ابھی فاتی نے یہاں تک ہی سوچا تھا کہ نیند سے آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔

’’چلو چیزیں اکٹھی کر دیتی ہوں۔ میں آپی سے پہلے اٹھ جاؤں گی اور ساراکام مکمل کر لوں گی۔‘‘سوچتے سوچتے وہ گہری نیند سو گئی۔
’’فاتی بیٹا اٹھ جاؤ۔آج تو تم نے آپی بھی بننا ہے ناں،امی کے یاددلانے پر بیسیوں آوازپر اٹھنے والی فاتی یکدم  بستر کو چھوڑ چکی تھی۔ نماز پڑھی۔ گھڑی پر نظر دوڑائی۔ سوئیوں کی حرکت سے وقت کا کچھ اندازہ لگاہی لیا۔ابھی تو بہت وقت پڑاہے وہ پھر نیند میں مدہوش ہوگئی۔ آپی کے یونیفارم تلاش کرنے پر ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی۔
’’اوہ اچھادیتی ہوں ابھی !چلیں شاباش آپ پہلے ناشتہ کر لیں ورنہ یونیفارم گنداہوجائے گا۔‘‘ فاتی نے خالص آپی والالہجہ اپنایا تو آپا مسکراتے ہوئے ناشتے کی ٹیبل کی جانب بڑھ گئیں۔

’’ آہ  ہ ہ  امی!‘‘ کچھ ہی لمحوں میں فاتی کی چیخ بلندہوئی۔
’’کیا ہوابٹیا۔‘‘ امی جان بھاگی آئیں۔

’’ اوہ ہاتھ جل گیا ۔بلّو جلدی جاؤ۔ پیسٹ لے کے آؤ۔‘‘امی جان نے پیسٹ لگادی ۔ خشک ہونے کے انتظار میں تھی کہ آپی نے جلدی کی اپیل کردی۔ سو مرتے مرتے  فاتی کو کپڑے پریس کر نے ہی  پڑے۔
’’یہ لو بلّو! آپی! اپنے یونیفارم !جلدی سے تیار ہوجائیں۔‘‘ اس نے حکم دیا۔
’’ہائیں !! یہ کپڑے کہاں سے پریس لگ رہے ہیں ؟‘‘ بلو حیرت سے اپنے یونیفارم کو تکنے لگا۔
’’ہائیں! یہ تو الٹے ہیں سیدھے بھی نہیں کئے گئے ۔‘‘ اب حیران ہونے کی باری آپی کی تھی۔
’’یہ جوتے بغیر پالش کے کیسے چمک گئے۔‘‘بلّو نے پالش کی ختم خشک ڈبیاکو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ ..وہ میں نے گیلے کپڑے سے صاف کئے ہیں ۔‘‘ فاتی بغیر رکے آگے بڑھ گئی ۔ سو سب کے تیار ہونے کے بعد خود تیاری کرنے لگی۔ دیر ہوچکی تھی۔ کنگھی بھی نہ کرسکی ۔

اسکول پہنچی تو سزا کا پروانہ مل گیا۔وہ منہ لٹکائے دیر سے آنے والے بچوں کی لسٹ میں آکھڑی ہوئی۔

’’لیکن آپی کوتو دیر نہیں ہوتی نہ ان کے بال بکھرے ہوتے ہیں۔‘‘  فاتی نے بال  چُھپاتے ہوئے سوچا۔

’’چلوپہلادن ہے! سمجھ آہی جائے گی۔ ویسے کون جانے میں آج سے آپی بن گئی ہوں ۔‘‘ لیکن اب  اس کی سرشاری میں کافی کمی آچکی تھی ۔
بریک ٹائم میں فاتی نے پرجوش ہو کر سب کو اپنی ’’پروموشن‘‘ یعنی آپی بننے کے بارے میں بتایا تو سب ہی ہم جولیاں اس پر رشک کرتی رہ گئیں۔
گھر لوٹی توباباجانی نے اسے فروٹس کے شاپر تھمائے تو وہ کچن میں جا گھسی ۔

’’بہت بھوک لگ رہی ہے مجھے ۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے جلدی سے کچھ چیزوں سے انصاف کیااور منہ صاف کرتے ہوئے نکل رہی تھی کہ اسے یاد آیاآپی تو ایسا نہیں کرتیں۔ اف! وہ سٹپٹاگئی۔
خیر عصر کے وقت سب کے یونیفارم نکالے۔ بڑاپیکٹ سرف کاٹب میں انڈیل دیااور کپڑے میں بھگودیے۔  راہ چلتے امی کی جو نظر پڑی تو ہکابکارہ گئیں۔

’’ فف..فاتی یہ کیا کیا۔‘‘ اتنا زیادہ سرف  ضائع ہونے پر ان کے صدمے کی انتہا نہ تھی۔
دروازے پر دستک نے فاتی کو متوجہ کیا۔ اس نے لپک کر دروازہ کھولا تو وہاں ہمسایوں کا بچہ پلیٹ میں کچھ پکڑا کر مڑ گیا۔ اس نے بچے کے جاتے ہی پلیٹ کھولی تو اتنی زبردست بریانی دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آگیا۔

’’ارے واہ! ثریا خالہ نے بریانی بنائی ہے۔ ‘‘  وہ بلا سوچے سمجھے آنافانا چٹ کرچکی تو ذہن میں جھماکا ہوا ۔

’’اف آپی تو پہلے چھوٹوں کو دیتی ہیں اور مم میں..اچھاکسی کو کیا پتہ چلا..نہیں نہیں آپی تو چھپاتی بھی نہیں..اگر نہ چھپایاتو ناک کٹ جائے گی۔‘‘ اس نے زورسے ناک کو تھام لیا لیکن آپی کی تو ناک سلامت ہے۔وہ بری طرح الجھتی ہوئی کمرے میں جابیٹھی۔یہ دن بہت بھاری گزرا۔تھکی ہاری فاتی بہت پریشان حال بیٹھی تھی کہ آپی آپہنچیں ۔
’’کیابات ہے فاتی ؟ ایسے کیوں بیٹھی ہو؟کیا طبیعت خراب ہے؟‘‘آپی نے دردمندی سے پوچھا۔
’’نہیں کچھ نہیں !‘‘ فاتی کے لہجے میں اداسی تھی۔
اچھا چلو میں سر دبا دیتی ہوں۔ لیکن اب آپ کو سمجھ آگئی ہو گی کہ آپی نے بہت سارا کام تو پہلے ہی سنبھالا ہوتا ہے۔ اگر وہ آپ کو معمولی سا کوئی کام کہ دیں تو برا نہیں ماننا چاہیے ناں!‘‘  

فاتی کے رکے ہوئے آنسو بہہ پڑے اور اس نے آپی کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے۔

’’ آپی جی مجھے معاف کردیں! آئندہ میں آپکا کام دل سے کروں گی۔ بالکل برا نہیں مانوں گی ۔پلیز مجھے فاتی اور خود کو آپی ہی رکھیں میری توبہ!‘‘ آپی اسے ساتھ لگاکر مسکرااٹھی ۔
اس کے ساتھ ہی فاتی نے آپی کے عہدے  سے استغفاء دے کر ننھی فاتی کی سیٹ دوبارہ سے  سنبھال لی کیونکہ جس کا کام اسی کو ساجھے!