صدقۂ جاریہ

          Print

اسد اپنے نانا جان کے گھر رہنے آیا ہوا تھا۔  روز نانا جان سب بچوں کو اپنے کمرے میں بلا کر کہانی سناتے تھے۔ آج بھی اسد اور اس کے تمام کزنز   بڑے کمرے میں جمع تھے۔

’’ہاں تو بچو! میں کہ رہا تھا کہ انسان کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا کام لازمی کرنا چاہیے جو اس کی مرنے کے بعد بھی اسے  نفع پہنچاتا رہے۔ ‘‘

’’نانا جان! ایسا کون سا کام ہو سکتا ہے جس سے مرنے کے بعد بھی ہمیں فائدہ ہو؟‘‘ اسد نے سوچتے ہوئے پوچھا۔

 

’’بیٹا ! بہت ساری نیکیاں ایسی ہیں جوانسا ن کو موت کے بعد بھی ثواب پہنچاتی رہتی ہیں بلکہ اس کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہیں۔ جیسے درخت اگانا ، کنواں یا تالاب بنوانا، مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا ، نہر کھدوانا وغیرہ۔ نہر سے یاد آیا  کیا آپ کو نہر زبیدہ کا قصہ معلوم ہے؟‘‘

’’نہیں نانا جان! سنائیے ناں‘‘ سب بچے یک زبان بولے۔

’’کیوں نہیں!  ملکہ زبیدہ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی تھیں۔  ایک بار وہ  حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آئیں۔ انہوں نے جب اہل مکہ اور حُجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اپنےپیسوں سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے ایک سو نوکرانیاں تھیں، جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کےمحل سے ہر وقت قرآن پاک کی  تلاوت کی آواز آتی رہتی تھی۔
زبیدہ نے پانی کی کمی کا حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اورپریشانیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر نکلوانے کا ارادہ کیا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ” جبال طاد “ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔
اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ ( 17,00,000 ) دینار خرچ ہوئے۔
جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا : آپ نے جس كام کا حکم دیا ہے اس کے لئے بہت اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی، تب کہیں جا کر اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے چیف انجینئر سے کہا : اس کام کو شروع کردو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔
اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر دریا میں پھینک دیےاور کہنے لگیں: ” یا اللہ! میں دنیا میں تیرے راستے میں خرچ کرنے میں کوئی حساب کتاب نہیں لیتی، تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔

کہا جاتا ہے کہ جب ملکہ فوت ہوئیں تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال پوچھا تو ملکہ نے کہا کہ جب نہر کی کھدائی کیلئے پہلی بار مزدور نے کسی چلائی  تھی تو اللہ پاک نے مجھے اسی وقت ہی بخش دیا تھا اور مجھے ایسی جنت میں محلات ملے ہیں جس میں ایک نہیں لاکھوں نہریں ہیں اور میں اتنی خوش ہوں کہ بتا نہیں سکتی۔

اللہ پاک ہمارے نیک کاموں کو بھی صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین!‘‘

نانا جان کے کہانی ختم کرتے ہوئے کہا تو سب بچوں نے بھی آمین کہا اور نانا جان سے اجازت لے کر سونے کے لیے چلے گئے۔ 


{rsform 7}