Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

arrownew e0’’دروزہ کھولو..... اندر جلدی چلو ....جلدی کرو۔‘‘

بلو اورفاتی دوڑےدوڑے گھر کی طرف بھاگے چلے آرہے تھے۔

فاتی نے کہا۔’’ تیز مت دوڑو ۔کہیں  تمھارے ہاتھ سے گر نہ جائے ۔ہماری ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔‘‘

’’ٹھیک ہے اب دوازہ کھولو کوئی ہمیں دیکھ نہ لے ۔‘‘

بلو نے جواب دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شانی جو کہ ان کے پڑوس میں رہتا تھا ، اس کے ابو نے اس کو دوپیارے چوزے دلائے تھے۔ ہرروزاسکول سے واپسی پر بلو اور فاتی اس کو پیارے چوزوں کے ساتھ کھیلتا دیکھتے تھے۔بلو کو  چوزے بہت پسند تھے ۔اس کے ساتھ فاتی بھی کھڑی ہوجاتی۔

arrownew e0’’ابوجان میرا گفٹ کہاں ہے؟کون سے بیگ میں ہے؟ کتنا بڑا گفٹ ہے؟‘‘

حسن نے سارے سوالات ایک ساتھ کرکے اپنا گفٹ ڈھونڈنا شروع کردیا۔

طلحہ بھی کمرے میں آکر بیگ کی طرف لپکا ۔

’’ ابو جان میرے  لے گفٹ نہیں لائے؟‘‘

’’اس بار تو آپ عید کے دن گھر پرنہیں تھے اور عیدی بھی ہمیں نہیں ملی۔ہمیں ڈبل ڈبل گفٹ ملنے چاہیے۔‘‘  انیسہ نے معصومانہ انداز میں کہا۔

arrownew e0بہادر گڑھ نامی ایک شہر میں شیروپہلوان نے اپنی جھوٹی دھاک بٹھارکھی تھی ۔ شیرو لمباچوڑا ، بھاری بھر کم آدمی تھا اور وہ اپنی ظاہری حالت کا فائدہ اٹھا رہاتھا۔ شہرمیں اس نے پہلوانی کے لیے بڑا عالی شان اکھاڑابنایا، جہاں بہت سے لڑکے ورزش کیا کرتے تھے ۔

شیروپہلوان تھوڑی دیر کے لیے آتا تھا ۔ اس کا چوڑاچکلا جسم ، ریشمی لنگی، زریں دوشالہ اورایک ہاتھ میں سونے کی زنجیر دیکھ کر لوگ اس کے رعب میں آجاتے اور اس کاادب لحاظ کرتے ۔ دکان دار بھی اسے بخوشی اُدھاردیتے اور اس کی آؤ بھگت کرتے۔

اس کے اکھاڑے میں ورزش کرنے والے اس کا پرچارکیا کرتے کہ ایسا پہلوان ہے جو صبح وشام ایک پورے بکرے کی یخنی پیتا ہے ،ناشتے میں پچاس انڈے اورایک سیر مکھن کھاتا ہے ، جس نے ایک شیر کا جبڑا ہاتھوں سے مروڑکراس کی مونچھیں اُکھاڑ پھینکی تھیں وغیرہ وغیرہ ۔

بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان اس کاادب کرتے اور اس سے ملاقات کے خواہش مند رہتے ۔ اتنا بڑا پہلوان کسی نے دیکھا تھا نہ سنا۔
ایک دوسرا پہلوان بھی اسی شہر میں آبسا ، مگراس بچارے کو کسی نے گھاس ہی نہیں ڈالی۔ اس نے سوچا کہ اگر بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

’’دادی جان کہانی سنائیں ناں!‘‘ عبدو نے ضد کی تو دادی جان نے ہار مان لی۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی تھیں اور عبدو ان کے پاؤں دبا رہا تھا۔

’’پہلے یہ بتاؤ تم نے ہوم ورک کر لیا؟‘‘

’’جی دادی جان! میں نے سب کام مکمل کر لیا ہے۔‘‘

’’شاباش! عبدو تو بہت اچھا بچہ ہے!‘‘ دادی جان نے خوش ہو کر کہا تو عبدو کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

’’’لو  سنو!دور کسی کے ملک کے بادشاہ نے اعلان کروایا کہ جو شخص جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا گیا تو دیندار قاضی سے پوچھ کر اسے سخت سزا دی جائے گی ۔جب یہ اعلان لوگوں نے سنا تو لوگ ایک دوسرے سے بھاگنے لگے کہی جھوٹ بولتے ہوئے نہ پکڑے جائے۔بادشاہ اور وزیر نے بھیس بدل کر شہر میں گھومنے لگے ایک تاجر کے پاس سے گزر ہوا تو ٹھر کر اس سے بات کرنے لگے بادشاہ نے تاجر سے پوچھا کہ تمہاری عمر کتنی ہے ؟ جواب دیا کہ بیس سال دوسرا سوال بادشاہ نے کیا کہ تمہارے پاس کتنی دولت ہے ؟تاجرنے کہا 70 ہزار ۔تیسرا سوال کیا کہ تمہارے کتنے لڑکے ہیں ؟تو تاجر نے کہا ایک۔

بادشاہ اور وزیر نے واپس آکر رکارڈ دیکھا تو تاجر کے جوابات کو غلط پایا پھر تاجر کو طلب کیا۔اور اس سے کہاکہ آپ نے اپنی عمر 20سال بتائی ہیں جو کہ غلط ہے اب آپ کو سزا ملے گی ۔تاجر نے کہا میری پہلے بات تو سنے ۔

میری زندگی کے 20 سال ہی اطمینان سے گزرے ہیں اسلئے میں اس کو اپنی عمر سمجھتا ہوں ۔

بادشاہ نے تاجر سے کہا آپ نے دولت کے متعلق بھی جھوٹ بولا ہے کیونکہ آپ کے پاس بے شمار دولت ہے اور آپ کا کہنا ہے کہ میرے پاس صرف 70 ہزار ہیں ۔

تا جرنے کہا 70 ہزار روپے میں نے مسجد کی تعمیر میں خرچ کئے ہیں اور یہی آخرت میں میری کام آئیں گے اسلئے میں اس کو اپنی دولت سمجھتا ہوں۔

پھر بادشاہ نے کہا کہ اپنے بچوں کے متعلق بھی غلط بیانی کی ہے سرکاری رجسٹر میں آپ کے بچوں کی تعداد پانچ ہے ۔

تاجر نے کہا: جناب چار بچے نا لائق بداخلاق اور آوارہ ہیں بس ایک ہی اچھے اخلاق اور کردار والا ہے۔

میں اسی کو اپنی اولاد سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سکون کا ذریعہ ہیں اور  آخرت کے اعتبار سے انشاء اللہ وہی میرے کام آئے گی۔

بادشاہ تاجر کے جوابات سن کر بہت خوش ہوا اور تاجر سے کہا بے شک وقت اور عمر تو وہی شمار کرنے کے لائق ہے جو اطمینان وسکون سے گزرے اور دولت بھی وہی گنے کے لائق تھے جس کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہو اور آخرت کے لئے ذخیرہ بنایا ہو اور اولاد بھی وہی کہلانے کے لائق ہے جس کے اعمال اور اخلاق اچھے ہوں ۔‘‘

کہانی ختم کر کے دادی جان نے عبدو کو آواز دی۔

’’چلو تم بھی جا کر سو جاؤ۔ بہت رات ہو گئی ہے۔ ‘‘ لیکن عبدو کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔

’’ہائیں! یہ کیا‘‘ دادی جان کے منہ سے نکلا۔ عبدو ان کے قریب ہی لحاف میں گھس کر سو چکا تھا۔

یونان میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ بڑا نیک دل اور دانش مند تھا،اسی لیے عقل مندوں اور حکیموں کا بڑا قدر دان تھا، خود بھی بہت بڑا عالم تھا اور عالموں کی بہت زیادہ قدر کرتا، اسے اچھی اچھی باتیں لکھوانے اور انہیں اپنے کتب خانے میں جمع کرنے کا بہت شوق تھا، دس برس کے عرصے میں اس نے سینکڑوں کتابیں جمع کرلی تھیں، وہ ان نادر کتب کا مطالعہ کرکے بہت خوش ہوا کرتا۔
بادشاہ ایک دن بیٹھا مطالعے میں مصروف تھا کہ اسے خیال آیا، کتب خانے میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں جس میں انسانی جسم کی تمام بیماریوں کی علامت اور ان کا علاج تحریر ہو، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسی کتاب ضرور لکھوائے گا۔
بادشاہ نے اسی وقت شاہی حکیم کو بلایا اور کہا، حکیم صاحب میں چاہتا ہوںکہ آپ حکمت پر ایسی کتاب لکھیں جس میں تمام انسانی بیماریوں کی علامات اور ان کا علاج تحریر ہو۔

’’ بچو! کیا آپ سب تیار ہو ؟‘‘دادا جان نے کمرے میں آ کر پوچھا ۔

’’جی بالکل ہم تو پارک جانے کے لئے بے تاب ہو رہے ہیں ۔‘‘ داؤد نے جوشیلے انداز میں کہا۔

’’کب جائیں گے؟ ‘‘ ایان آہستہ سے بولا ۔

اسی دوران باہر سےہارن کی آواز آئی ۔چاچو پٹرول فل کرواکے واپس آئے تھے ۔

صفیان نے بیگ پہن کر پوچھا۔’’دادا جان گاڑی آ گئی ہم جا کر بیٹھ جائیں ؟‘‘

ابھی آپ سب کو تھوڑی دیر صبر کرنا ہوگا ۔ پہلے ہم  گاڑی میں ساراضروری سامان رکھ دیں۔ ‘‘

ستارا شیشے کے ڈسپلے میں سجی گلابی فراک کو دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ اُسے احساس تک نہیں ہوا کہ اُسکے پاپا کب سے ہاتھ میں آئسکریم پکڑے اُسکی محویت ٹوٹنے کے منتظر ہیں مگر ستارا ادرگرد سے بے خبر فراک دیکھے جارہی تھی۔

مجبوراََ احسان صاحب کو اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہرانا پڑا، تب کہیں جاکر اُنہوں نے فراک سے نظریں ہٹا کر آئسکریم کو دیکھا جو تقریباََ پگھلنے کے قریب تھی۔ پاپا کے ہاتھ سے آئسکریم لے کر وہ گاڑی میں جا بیٹھی، گھر جانے کے بعد بھی وہ فراک اُسکے ذہن میں رہی۔

اُسے بھولنے کی ہر ممکن کوشش کی ،بالآخر مجبوراََ پاپا سے فرمائش کردی کہ وہ اُسے فرمائش کردی کہ وہ اُسے گلابی فراک خرید دیں جسے وہ سکول کے فنکشن میں پہن کر جائے گی۔ صبح احسان صاحب آفس چلے گئے اور  ستاراشام تک اپنی نئی فراک کا انتظار کرتی رہی۔