Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

Neem Hakeem

فاتی اور بلوّ کی دادی جان گاؤں سے آئی ہوئی تھیں۔ دادا ابو ہاسپٹل میں داخل تھے۔ اصل میں انہوں نے گاؤں میں ایک اناڑی حکیم سے دوا لے لی تھی جس کی وجہ سے ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔ ابو جان نے اطلاع ملتے ہی فوراً ان کو بڑے ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ ابھی بھی وہ ان کی تیمارداری کے لیے ہسپتال میں ہی تھے۔

رات ہو چلی تھی لیکن نیند کس کو آتی۔ صبح ویسے بھی اتوار کا دن تھا۔ امی جان نے بھی فاتی اور بلوّ کو سونے کے لیے نہیں کہا۔ وہ دادی جان سے باتیں کر رہی تھیں۔

’’امی! نیم حکیم خطرہ ٔ جان ہوتا ہے۔ وہ تو شکر ہے کریم انکل نے ہمیں فون کر دیا ورنہ نہ جانے کیا ہو جاتا۔‘‘ امی جان نے دادی جان سے کہا۔

بلوّ کو سمجھ  نہ آئی ۔ وہ یکدم بول اٹھا۔

Behtreen Din

  اسکول  میں  ١٤  اگست  پر جشن  کا ماحول تھا  ۔جگمگاتے  سے روشن درو دیوار  تھے  ۔ہر طرف  جھنڈے  لہرا  رہے تھے  ۔ بچیوں کے ہاتھوں میں ہری  جھنڈیاں  تو  بچوں  کے چہرے اور ہاتھوں پر   جھنڈیوں کے نقشے ، سب کی زبان  پر  جشن آزادی  مبارک کا نعرہ  تھا ۔اس خوبصورت  سماں  میں فائق  اسٹیج  پر جوش و خروش  سے تقریر کر رہا  تھا ۔

’’ محترم  سامعین اور ہم  وطنو ! میں اپنی   تقریر  کے آخر  میں  اپنے  خوبصورت  بانی  کے  شاندار  الفاظ  بیان کرنا چاہوں  گا  کہ ١٣ اگست ١٩٤٨  کو اسلامیہ کالج  پشاور  میں تقریر  کرتے ہوے بانی  و   قائد ا عظم محمد علی جناح  نے فرمایا تھا ۔’’ہم نے پاکستان  کا مطالبہ  زمین کا ٹکڑا  حاصل   کرنے  کے  لئے  نہیں کیا   بلکہ  ہم  ایسی جاےٴ پناہ  چاہتے  ہیں جہاں  ہم اسلامی  اصولوں کے مطابق  زندگی بسر  کر سکیں ۔‘‘

’’  میرا پاکستان زندہ  باد!‘‘   نعرہ  لگاتے ہوے  فائق  نے اپنی تقریر  کو ختم  کیا  اور تالیوں  کی گونج  میں  اسٹیج  سے اترتے  ہوئے  دو دن پہلے کا منظر  یاد  آ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی دو دن پہلے ہی تو وہ   بہت پریشان  اپنے کمرے  میں بیٹھا  تھا  کہ ابو جی  کے  آنے  کا پتہ  ہی نہ چلا۔

’’بیٹا  فائق  تم  کیوں  اتنے پریشان   لگ رہے  ہو ؟‘‘ ابو نے پیار سے پوچھا۔

جب چھٹیاں ہوئیں!

فاتی اور بلوّ بہت خوش تھے۔ آج ان کے اسکول کا آخری دن تھا۔ ان کو سکو ل سے پوری دس چھٹیاں مل گئی تھیں۔ تین چھٹیاں سپورٹس ویک کے آخر والی پھر ایک اتوار کو ملا کے اگلا پورا ہفتہ بڑی عید کی چھٹیوں کے لیے۔ وہ اسکول سے واپسی پر وین میں بیٹھے اپنے اپنے پلان بنا رہے تھے ۔

’’میں تو سارے جاسوسی ناول ختم کر دوں گی جو مجھے ناصر ماموں نے لا کر دیے تھے۔ ‘‘ فاتی نے تصور ہی تصور میں خود کو انسپکٹر جمشیدسمجھتے ہوئے کہا۔
وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کون کون سے پسندیدہ ناول محلے......

گڈو اور چودہ اگست

نو سالہ گڈو اپنے گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور اس وجہ سے سبھی کا لاڈلا بھی۔اسکی ہر خواہش پوری کردی جاتی ۔ایسا کم وبیش ہی ہوتا کہ اس کی کسی با ت سے انکارکیا جائے۔

وہ بہت ہی پیا را بچہ تھا۔اسکی شرارتیں اور حرکتیں اتنی پیا ری ہوتیں کہ ٹوٹ کے پیار آتا اور تو اور اسکی با تیں بھی بڑی دلچسپ تھیں۔ یو ں وہ سب کی آنکھ کا تارا تھا

جب چھٹیاں ہوئیں!

فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد  چھ سالہ عبداللہ سیدھے بسترمیں چلا گیا۔ ماما جان کے کئی دفع آواز دینے پر بھی اس نے بستر نہیں چھوڑا۔

’’عبداللہ اٹھ جاؤ بیٹا آپ نے اسکول نہیں جانا، دیکھو نور آپی تیار ہورہی ہے۔‘‘  ماما جان نے پیار سے عبداللہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’نہیں ماما مجھے اسکول جانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ عبداللہ نےچادر سے سر نکال کر جواب دیا۔

"اسکول جانا اچھا کیوں نہیں لگتا آپ کو تو وہاں اچھی اچھی باتیں سیکھنے ملتی ہے۔دیکھو تو نور آپی بھی اسکول جارہی ہے"۔ ماما جان نے اسے پیار سے سمجھانا چاہا۔

"نہیں ماما مجھے اسکول جانے سے ڈر لگتا ہے وہاں ڈھیر سارے بچے ہوتے ہیں اور ٹیچرز بھی۔ مجھے خوف آتا ہے مجھے نہیں جانا۔‘‘ عبداللہ نے کمبل سر تک اوڑھ لی۔

’’دیکھو ضد نہیں کرتے جلدی سے اٹھو۔‘‘ ما ما جان نے ڈانٹ کر کہا۔  اب ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ عبداللہ نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔’’ ماما میں نے اسکول نہیں جانا!!‘‘  بابا نے بھی سمجھایا اور بھیا نے بھی لیکن عبداللہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔

عبداللہ کے رونے کی آواز سن کر دادی جان اپنے کمرے سے باہر آئیں

گڈو اور چودہ اگست

(آخری قسط)

’’چلیں جلدی آئیں!‘‘ ابھی گڈو کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ امی  نے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر دوسری دکا ن میں داخل ہوگئیں۔گڈو کا اب دل نہیں لگ رہا تھا۔  اسکا سارا دھیان اس رونے والےبچے کی طرف تھا اسکا رونا بہت تکلیف دہ تھا۔

’’گڈو بیٹا! یہ شرٹ دیکھیے۔کیسی ہے؟ آپکی پسند کی ہے ناں! آپ پہ خوب جچ بھی رہی ہے۔‘‘ امی جان کہ رہی تھیں۔گڈو بس گردن ہلا کے رہ گیا۔ وہ مسلسل اسی بچےکو سوچ رہا تھا۔ جب وہ دکا ن سے باہر نکلا اسے پھر وہی بچہ روتا ہوا نظر آیا۔وہ اس بچے کے پاس پہنچ گیا۔اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔ ’’دوست السلام علیکم! آپ  رو کیو ں رہے ہیں؟‘‘

بچے  نے جواب دیا۔ ’’مجھے بھی 14 اگست منا نی ہے ،چیزیں خریدنی ہیں۔‘‘

سچ  بولو ہمیشہ

arrownew e0عائشہ  نے نانا  جان  کو تکیہ  رکھتے  ہوے  کہا  : "  آج آپ ہمیں کون سی کہانی سنائیں گے؟" نانا  جان نے عمارہ  اور محمد   کو اپنے پاس بٹھاتے  ہوے  کہا  :" میرے پیارے بچو ! آج  میں آپ  کو ایک سبق آموز  کہانی  سنانے  والا ہوں۔ "

محمد خوشی خوشی جگ سے  گلاس میں  پانی ڈال کر  نانا جان کو دینے لگا :" بس نانا جان  ہم سب سننے کے لئے