Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

یہ جون کی تپتی دوپہر تھی ۔ سورج اپنے جوبن پر تھا۔ حمزہ کا حلق جیسے سوکھ گیاتھا۔ بھوک سے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ ایسے میں حمزہ کو یاد آیا کہ فریج میں کولڈ ڈرنک اور کچھ کھانے کی چیزیں موجود ہیں۔ آج تو میرا روزہ ہے وہ بھی پہلا۔نہیں میں ایسانہیں کرسکتا۔ ہاں توکیا ہوا ویسے بھی یہاں کون دیکھ رہاہے ؟ لفظ گڈ مڈ ہونے لگے تھے …ہاں …ہاں …نہیں …اللّٰہ جی تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ دادی اماں اپنے کمرے میں عبادت کررہی ہیں۔ امی اور ابو ویسے گھر پر نہیں ہیں۔ فاریہ ابھی بہت چھوٹی ہے اس کو کیا پتا …اپنی چھوٹی بہن کا خیال آتے ہی حمزہ سوچ میں پڑ گیا ۔ فاریہ کو کیا پتا روزہ کیاہوتاہے ۔ اب حمزہ کے دل ودماغ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔ فریج کا دروازہ آدھا کھلا ہواتھا۔ فریج میں جو قسم قسم کے مشروبات اور لذیذ آم صاف نظر آ رہے تھے ۔ یہ ٹھنڈے مشروب سوکھے حلق کو سیراب کرسکتے تھے۔ اللّٰہ جی ناراض ہوں گے ۔ آخر اللّٰہ جی کی ناراضگی کے خوف کا خیال غالب آنے لگاتھا۔

"شہباز!" باورچی خانے سے امی کی آواز آئی۔ میں گھر کے پچھواڑے میں گیند سے کھیل رہا تھا، ان کی آواز سن کر رک گیا۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ امی نے کس لیے بلایا ہے۔

"شہباز، کدھر ہو؟" امی کی آواز میں مجھے وہ سختی محسوس ہوئی جو کٹہرے میں کھڑے ملزم سے سوال کرتے ہوئے وکیل کی آواز میں ہوتی ہے۔ تیسری بار آواز آئی تو میں نے آہستہ آہستہ گھر کے دروازے کی جانب چلنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی میں یہ بھی سوچنے لگا کہ امی کو کیا جواب دوں گا۔ دروازے کے ساتھ ہی بائیں جانب باورچی خانہ تھا، جہاں امی چوکی پر بیٹھی تھیں۔

"جی؟" میں دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور نظریں اپنے ننگے پاؤں پر گاڑ دیں، جن پر مٹی جمی ہوئی تھی۔

’’امی جان ! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ آٹھ سالہ راشد جیسے ہی سکول سے گھر آیا تو سوال کیا۔

’’بیٹا! بھنڈی پکی ہے۔ آپ جلدی سے کپڑے بدل لو  ۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ امی جان نے شفقت سے کہا۔

’’نہیں!  آج پھر بھنڈی! اف! میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔بس!‘‘ راشد نے منہ بنایا اور بھاگ کر کمرے میں چلاگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راشد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والدین اس کو بہت چاہتے تھے اور اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ راشد کو اچھے  سے اچھا اور صحت مند کھانا کھلائیں ۔ اس کے لیے امی جان نے گھر میں ایک فوڈ چارٹ بھی لگا رکھا تھاجس پر ایک  معتدل روٹین درج تھی۔ 


 arrownew e0ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک چھوٹا سا لڑکا عبدو رہتا تھا۔ عبدو کا کوئی کام سیدھا نہیں تھا۔ جب وہ بوتل سے پانی گلاس میں ڈالنے لگتا ، تو پانی یہاں وہاں گر جاتا۔ وہ روٹی کا نوالہ بناتا تو انگلیاں آدھی آدھی شوربے میں ڈبو لیتا۔ جب وہ ہوم ورک کرنے بیٹھتا تو اس کا ربر گم جاتا اور کبھی پنسل بنی ہوئی نہ ہوتی۔ کبھی اس کی امی اسے نکڑ کی دکان پر بھیجتیں کہ کچھ ٹماٹر لے آؤ۔ عبدو جب تک دکان پر پہنچتا اسے بھول چکا ہوتا کہ اس نے کیا لانا تھا۔ کبھی وہ توریوں کی جگہ ٹینڈے لے آتا کبھی پودینے کی جگہ پالک۔

ایک بار عبدو کی امی نے سوجی کا حلوہ بنایا اور عبدو کو دیتے ہوئے کہا۔

’’یہ حلوہ خالہ جان کے گھر دے آؤ۔ دیکھو! سیدھے جانا اور سیدھے آنا۔‘‘

عبدو نے غور سے امی کی بات سنی اور سر ہلا دیا۔ پھر اس نے حلوہ کا ٹفن پکڑا اور گھر سے چل دیا۔ وہ ناک کی سیدھ میں چلا جارہا تھا کہ اچانک اسے اپنا دوست ماجو مل گیا۔

مَیں ہوںنینا۔ مَیں چھٹی جماعت میں پڑھتی ہوں ۔ ویسے تو مَیں پڑھائی میں بہت اچھی ہوں پر کھیل کود میں تو ہمیشہ پہلے نمبر پر آتی ہوں۔ اسکول میں میری ڈھیر ساری سہیلیاں ہیں اور سبھی ٹیچر مجھے بہت پسند کرتی ہیں۔ سب کچھ بہت اچھا چل رہاتھا لیکن ایک دن مَیں بہت پریشان ہو گئی۔
کلا س میں پڑھاتے وقت ایک دن ٹیچر نے بتایا کہ راستے میں پتھریلا راستا، اونچے پہاڑ ، بادلوں بھرا آسمان ملے گا۔ لیکن ہمیں ڈرنا نہیں ہے، ننگے پاوں اُن راستوں پر بس چلتے ہی جانا ہے۔ اگرکہیں پھول یا ہریالی نظر آئے تو بھی نہیں رُکنا ۔ مَیں نے اپنی سہیلیوں سے تو کچھ نہیں پوچھا لیکن مجھے بہت ڈر لگنے لگا۔ گھر پہنچ کر امّی پاپا سے بات چیت کیے بغیر مَیں نے اسکول کا ڈریس بدلا اور اپنے کمرے میں جاکر بیڈ پر لیٹ گئی ۔

 

’’ارے وہی جو تم نے اتوار والے روز بھیجی تھی۔ لو بھئی! عبدو کی ماں ہو ناں۔ بھول گئی ہو تم بھی۔‘‘ خالہ جان نے امی سے کہا اور مسکراتے ہوئے نانی جان کے پاس بیٹھ گئیں۔

امی نے عبدو کو دیکھا۔ وہ سمجھ چکی تھیں ضرور عبدو نے گڑ بڑ کی ہے۔

’’جلدی بتاؤ! سوجی کا حلوہ کہاں گیا؟‘‘ امی جان ڈنڈا لیے سر پر آن کھڑی ہوئی تھیں۔ نانی جان سنبھلتے ہوئے تخت سے نیچے اتریں اور عبدو کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔


 پیارے بچو ! ولی ایک بہت ہی پیارا بچہ ہے ۔  وو گھر کےقریب ہی واقع ایک سکول میں پڑھتا ہے ۔ ولی پہلی جماعت میں پڑھتا ہے۔ آفس جاتے ہوئے اس کے بابا اس کو سکول چھوڑتے ہیں اور چھٹی ٹائم اسکی امی اسے سکول سے لاتی ہیں۔   دونوں ماں بیٹا راستے میں ایک دوسرے سے بہت سی باتیں کرتےہیں۔

کل جب ولی کی امی اسے سکول سے لینے آئیں تو ولی کسی سوچ میں گم اورچپ چپ سا تھا ۔ امی نے حسب معمول ولی کو پیار کیا اور اس کے ہاتھ سے بیگ لے لیا ۔

"آج میرا بیٹا چپ کیوں ہے ؟" امی نے تھوڑا سا چلنے کے بعد محسوس کیا توکہا ۔