’’بیٹایہ پانچ سو روپے ہیں ۔‘‘باباکے یہ کہتے ہی وہ اچھل پڑی۔
’’کیاواقعی ؟‘‘سات سالہ نور باباکو ناقابل یقین نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
’’ہاں بیٹا!‘‘
’’یہ ۔۔کیسے ہوسکتاہے !‘‘ نور بڑبڑائی۔
’’یہ ہوسکتاہے تبھی تو ہوا ہے۔‘‘ بابامسکرائے۔
’’لیکن بابامیں نے بھی تو گنتی کی تھی لیکن اتنے تو نہ تھے ۔‘‘ وہ مصر تھی۔
دراصل کچھ ماہ پہلے بڑوں نے سیر کا پرگروم بنایاتو تب سے ہی سب بچے اپنی پاکٹ منی سے کچھ نہ کچھ بچاکر جمع کرنے لگے تھے اور نور کیوں پیچھے رہتی !
صبح ہی سب سیر کو نکلنے والے تھے اور نور کے گھر ہی جمع تھے۔ بچے اپنی اپنی پاکٹ منی لئے اچھل رہے تھے تو نور بھی جلدی سے کمرے میں آئی اور لاکر سے پیسے نکال بیٹھی۔ وہ گنتی کرتے کرتے بھول جاتی آخر اسے باباجان کی مدد لیناپڑی اور بابا نے بھی بخوشی قبول کی۔
جب بابانے اسے بتایاکہ یہ پانچ سو روپے ہیں تو وہ حیران پریشان ہوگئی کہ اس کی گنتی تو سو سے اوپر جانے کو تیار ہی نہ تھی۔ شایدبابانے میرادل رکھنے کے لئے کہاہو۔ لیکن باباجھوٹ تو نہیں بولتے ناں!
برآمد ے کی سیڑھی پر بیٹھی وہ سوچتی چلی جارہی تھی۔ کبھی خوش ہوتی کہ اتنے پیسے لیکن اگلے ہی لمحے پریشان بھی کہ کیسے؟؟
’’لاؤ بیٹااب کی بار میں تمہیں دِکھاکر گنوں گا۔ شاید آپ کو یقین آجائے۔‘‘ باباجانی اس کی حیرانی بھانپتے ہوئے شفقت سے بولے۔
نور نے خاموشی سے پیسے ان کی طرف بڑھادیے اور اب باباجانی بلند آواز میں اسے ساتھ ساتھ بتاتے جارہے تھے۔ جب باباجانی نے اسکے خیال میں ایک روپے والے سکے کو پانچ روپے شمارکیاتو نور حیرت سے دم بخودرہ گئی۔
’’کیوں بابایہ تو ایک ہے تو اسے ایک روپیہ ہی کہاجائے گاناں!‘‘وہ چِلااٹھی۔
’’لیکن بیٹایہ پانچ کے برابر ہے یہ دیکھو !انہوں نے پانچ کے ہندسے کی طرف اشارہ کیااوروہ نور کی بے چینی سمجھ گئے۔
’’بیٹاہر سکہ ایک روپیہ نہیں ہوتابلکہ کوئی پانچ روپے کے برابر ہوتا ہے اور کوئی دوروپے کے۔ اسی طرح ہر نوٹ صرف دس روپے کاہی نہیں ہوتا کوئی پچاس کاکوئی سو روپے کا اسی طرح مختلف نوٹ اور سکے ہوتے ہیں ان کی پہچان ان ہندسوں سے کر لیاکروبیٹا۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی تو وہ خوشی سے سرشار ہوگئی کہ واقعی پانچ سوروپے ہیں اور اب وہ ایسے خوش تھی گویاکسی بڑے خزانے کی معلومات ہاتھ لگ گئی ہوں ۔ باباہنسی دبائے اسے دیکھنے لگے۔