یونان میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ بڑا نیک دل اور دانش مند تھا،اسی لیے عقل مندوں اور حکیموں کا بڑا قدر دان تھا، خود بھی بہت بڑا عالم تھا اور عالموں کی بہت زیادہ قدر کرتا، اسے اچھی اچھی باتیں لکھوانے اور انہیں اپنے کتب خانے میں جمع کرنے کا بہت شوق تھا، دس برس کے عرصے میں اس نے سینکڑوں کتابیں جمع کرلی تھیں، وہ ان نادر کتب کا مطالعہ کرکے بہت خوش ہوا کرتا۔
بادشاہ ایک دن بیٹھا مطالعے میں مصروف تھا کہ اسے خیال آیا، کتب خانے میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں جس میں انسانی جسم کی تمام بیماریوں کی علامت اور ان کا علاج تحریر ہو، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسی کتاب ضرور لکھوائے گا۔
بادشاہ نے اسی وقت شاہی حکیم کو بلایا اور کہا، حکیم صاحب میں چاہتا ہوںکہ آپ حکمت پر ایسی کتاب لکھیں جس میں تمام انسانی بیماریوں کی علامات اور ان کا علاج تحریر ہو۔


شاہی حکیم نے کہا۔ سرکار میں آپ کی بات اچھی طرح سمجھ گیا، میں بہت جلد ایسی کتاب تیار کروں گا جسے آپ پسند فرمائیں گے اور وہ نہایت مفید کتاب ہوگی۔ یہ کہہ کر جناب حکیم نے بادشاہ سے اجازت لی اور رخصت ہوگئے۔
بادشاہ کو دلی طور پر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کتاب نہ صرف اس کے کتب خانے کی زینت بنے گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنما اور مفید ثابت ہوگی۔
شاہی حکیم نے بادشاہ کے فرمان کے مطابق کتاب لکھنا شروع کردی، سب سے پہلے انہوں نے ایسی تمام بیماریوں کے نام اکٹھے کیے جو انسانوں کو لاحق ہوسکتی تھیں، اس کے بعد ان کے علاج اور پرہیز لکھنے کا مرحلہ آیا، اس سلسلے میں حکیم صاحب نے ان تمام جڑی بوٹیوں کے نام لکھ ڈالے جو بطور دوا استعمال ہوسکتی تھیں، اس کتاب کو تیار کرنے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا مگر حکیم نے اسے ایک ہی جلد میں تیار کردیا۔
کتاب مکمل کرلینے کے بعد وہ دربار میں گیا اور نہایت ادب و احترام سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں اسے پیش کیا۔
بادشاہ کتاب دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس نے انعام کے طور پر ممدوح کو مالا مال کردیا، شاہی حکیم بھی بہت خوش ہوئے، انہیں اس بات کی زیادہ خوشی تھی کہ ان کی محنت کا صلہ کہیں زیادہ بڑھ کر دیا گیا ہے اور دوسری خوشی اس بات پر کہ ان کی کتاب ایک سچے قدر دان کے پاس گئی ہے، کچھ عرصے کے بعد وہ قضائے الٰہی سے وفات پاگئے۔
بادشاہ نے وہ کتاب اپنے مطالعے کے خاص کمرے میں رکھوادی، ایک دن جب وہ فارغ بیٹھا تھا تو اسے اچانک اس کتاب کا خیال آیا، اس نے فوراً منگوائی اور اس کا مطالعہ شروع کردیا، بادشاہ کو شروع ہی سے کتاب بہت پسند آئی، اسے نہایت آسان اور سلیس زبان میں لکھا گیا تھا۔
بادشاہ نے بیماریوں کی علامات کے بارے میں پڑھا پھر ان کے آسان ترین علاج کے بارے میں مطالعہ کیا اور جن ادویہ کے استعمال میں جن چیزوں کا پرہیز تھا، انہیں بھی غور سے پڑھا، آخر وہ ایک ایسے باب پر پہنچا جس میں لکھا ہوا تھا کہ کیا کیا چیزیں کھانے کے بعد کن کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، اس کے بعد لکھا گیا تھا کہ اگر دو متضاد چیزیں کھالی جائیں تو ان سے کون کون سے بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اور انسان کن کن تکالیف میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
یہ باب پڑھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا، وہ سوچنے لگا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ دو متضاد چیزیں کھالینے سے آدمی بیماری ہوجائے، ایک جگہ لکھا تھا کہ اگر تربوز کھالینے کے فوراً بعد دودھ پی لیا جائے تو شدید درد قولنج یعنی انتڑیوں کے درد کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے، اسے یہ بات ناممکن لگی، اس نے سوچا کہ حکیم صاحب تو اب اس دنیا میں نہیں رہے، ان کے بیٹے کو بلا کر دریافت کیا جائے کہ حکیم صاحب کے دعوے میں کس حد تک صداقت ہے۔
دوسرے روز بادشاہ سلامت نے شاہی حکیم کے بیٹے کو بلایا اور اس سے اس مسئلے کے بارے میں دریافت کیا کیوں کہ وہ خود بھی ممتاز حکیم تھا۔
بیٹے نے کہا، بادشاہ سلامت کا اقبال بلندد ہو، آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد ایک لائق اور تجربہ کار حکیم تھے انہوں نے جو کچھ تحریر کیا وہ ضرور تجربے کی کسوٹی پر پورا اترے گا۔
بادشاہ نے کہا، ہم اسے آزما کر دیکھنا چاہتے ہیں، حکیم صاحب کے بیٹے نے کہا کہ آپ صبح کسی شخص کو طلب فرمائیں اسے یکے بعد دیگرے دونوں چیزیں کھلائیں اور پھر اس کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمالیں۔ بادشاہ نے اس کی بات مان لی۔
صبح ہوتے ہی سپاہی ایک صحت مند کسان کو بادشاہ کے دربار میں لے آیا، بادشاہ نے حکیم صاحب کے بیٹے کو بھی بلالیا اور اسے کہا کہ کسان کو پہلے تربوز کھلایا جائے ، اس کے بعد اسے دودھ پلایا جائے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ واقعی یہ درد قولنج میں مبتلا ہوتا ہے یا نہیں، حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔
کسان کو پہلے تربوز کھلایا گیا اس کے دو منٹ بعد اسے گرم گرم دودھ پلا کر ایک کرسی پر بٹھادیا گیا، ایک منٹ گزرا، پھر دو منٹ، پھر تین منٹ، پھر پانچ منٹ یہاں تک کہ آدھا گھنٹہ گزر گیا، لیکن کسان پر کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہ ہوا۔
جب کسان سے پوچھا گیا کہ تمہیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہورہی، تو اس نے کہا۔ بادشاہ سلامت، میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں۔
بادشاہ نوجوان سے مخاطب ہوا اور بولا۔
تمہارے والد نے یہ عجیب بات لکھ دی، اب تم نے بھی دیکھ لیا کہ کسان پر ان دونوں چیزوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔
حکیم صاحب کا بیٹا سوچ میں پڑگیا۔ آخر تھوڑی دیر بعد بولا،بادشاہ سلامت مجھے تین ماہ کی مہلت دی جائے، اسی عرصے کے دوران کسان میرے پاس رہے گا، تین ماہ بعد میں آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔ بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرلی۔
حکیم صاحب کا بیٹا کسان کو اپنے ساتھ گھر لے گیا اور اسی دن سے اسے شاہی کھانے کھلانے لگا، اسے نرم و ملائم کپڑے پہننے کے لیے دیے گئے اور سونے کے لیے بھی نرم اور انتہائی آرادم دہ بستر دیا گیا، غرض کسان نہایت آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے لگا، جب کھانے کا وقت ہوتا تو اسے بڑے لذیذ کھانے پیش کیے جاتے کسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اپنی زندگی میں ایسے عمدہ کھانے کھاسکے گا اور عیش کی ایسی زندگی بسر کرے گا۔
آخر کار تین ماہ کا عرصہ پورا ہوگیا، حکیم نے سوچا کہ اب کسان کے مزاج کا امتحان لینا چاہیے، اس نے ایک رات اس کے بستر کی چادر کے نیچے مختلف جگہوں پر گندم کے دانے بکھیر دیے اور پلنگ کے ایک پائے کے نیچ گتے کے موٹے موٹے ٹکڑے کاٹ کر رکھے تاکہ دیکھا جائے، اسے نیند آتی ہے یا وہ بے چین ہوتا ہے۔
سونے کا وقت آیا تو کسان اپنے پلنگ پر جا کر لیٹ گیا، اس نے محسوس کیا کہ اس کا بستر ناہمورا ہے اور اسے کوئی چیز چبھ رہی ہے وہ جس طرف بھی کروٹ لیتا اس کا یہی حال ہوتا، کمرے میں اندھیرا تھا، اسے نظر بھی کچھ نہیں آیا، اس نے ساری رات بے چین اور بے کل ہو کر کاٹی، دن نکلا تو اس نے شکر ادا کیا۔ ناشتے کے وقت حکیم نے کسان سے پوچھا، کہو بھئی رات کیسی گزری، کسان نے کہا، حکیم صاحب کچھ نہ پوچھیں، رات بہت بے چینی سے گزری، یوں لگتا تھا جیسے پلنگ اونچا نیچا ہو، کمر میں تمام رات کنکر چبھتے رہے، میری تو ساری رات آنکھ نہیں لگی۔
یہ سن کر حکیم نے سوچا کہ اب اس کا مزاج بدل چکا ہے، عیش کی زندگی نے اس کی طبعیت بدل دی ہے، وہ کسان جو تمام دن دھوپ میں کام کیا کرتا تھا آج اتنا نازک مزاج ہوچکا ہے کہ اسے گتے کے صرف دو ٹکڑوں سے پلنگ ناہموار محسوس ہونے لگا ہے اور باریک گندم کے دانے پتھروں کی طرح چبھنے لگے ہیں۔
حکیم اپنے کام سے مطمئن ہو کر کسان کو بادشاہ کے پاس لے گیا اور کہا کہ حضور اب آپ اس کا امتحان لیں۔
بادشاہ تو اسی انتظار میں تھا، اس نے فوراً تربوز اور دودھ لانے کا حکیم دیا، جب دونوں چیزیں آگئیں تو کسان کو پہلے تربوز کھلایا، پھر دودھ پلایا گیا، ابھی ایک منٹ بھی نہ گزرا تھا کہ کسان کے پیٹ میں شدید درد شروع ہوگیا اور تکلیف کی شدت سے وہ تڑپنے لگا، یہاں تک کہ اس کی حالت غیر ہوگئی، بادشاہ اس تبدیلی پر بہت حیران ہوا، اس نے حکیم سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب ہے، اس نے کہا۔ حضور، بات یہ ہے کہ میرے والد نے یہ نسخے بہت سوچ سمجھ کر لکھے تھے، کتاب میں زیادہ تر نسخے بادشاہوں کے لیے لکھے گئے اور جو باتیں تحریر کی گئیں وہ شاہی مزاج کے مطابق تھیں۔
اب اس کسان کی بات سن لیں، پہلے یہ بڑا محنتی تھا، سخت محنت مشقت کیا کرتا اور اس کا معدہ لکڑ ہضم، پتھر ہضم تھا، لیکن جب اسے عیش و عشرت میں رکھا گیا تو یہ نرم اور نازک مزاج ہوگیا، شاہی کھانے کھا کھا کر اس کا معدہ پہلے جیسا نہیں رہا، آج آپ نے دیکھ لیا کہ تربوز اور دودھ نے اس پر کتنی جلدی اثر کیا اور یہ درد اور تکلیف کی وجہ سے تڑپنے لگا، یہ صرف اور صرف آرام طلبی اور محنت نہ کرنے کا نتیجہ ہے، کسان جب تک محنت کرتا اور سادہ زندگی بسر کرتا رہا، وہ بیماریوں سے دور رہا لیکن جب وہ محنت ترک کرکے عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے لگا، اس کی طبیعت میں نزاکت آگئی اور وہ بہت جلد بیمار ہوگیا۔
بادشاہ نے حکیم کے بیٹے کی بات مان لی اور کسان کے علاج کا حکم دے دیا۔