’’فاتی! نلکا بند کر دو۔ کب سے کھلا ہوا ہے۔‘‘ امی جان چلائیں۔
فاتی صحن میں لگے واش بیسن سے ہاتھ منہ دھونے کے بعد تولیہ سے خشک کر رہی تھی۔ امی جان کی آواز پر اس نے یکدم بوکھلا کر نلکا بند کردیا۔
"کتنی بار کہا ہے بیٹا! جیسے ہی منہ ہاتھ دھو لو نلکا فورا ًبند کرو۔"
"جی امی! سوری مجھے بھول جاتا ہے۔" فاتی نے ہمیشہ کی طرح سوری کرتے ہوئے سر جھکا لیا تو امی جان نے مزید ڈانٹنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو بلّو اور فاتی کا روز کا معمول تھا۔ یعنی بلا وجہ اور بے تحاشا پانی ضائع کرنا۔ اکثر کبھی امی اور کبھی ابو سے ڈانٹ کھاتے۔
ابھی تھوڑے دنوں پہلے کی بات ہے کہ ابو نے بلّو کو سیب دھو کر لانے کو کہا۔ بلّو جلدی سے گیا اور کچن کے سنک سے سیب دھو لایا۔
کافی دیر بعد جب امی کچن میں گئیں تو نل تھوڑا سا کھلا رہ گیاتھا۔
فاتی جب بھی ٹوتھ برش کرتی نلکا کھلا چھوڑ دیتی۔ کافی سارا پانی ضائع ہو چکتا جب تک فاتی کے دانت صاف ہوتے۔
ان دونوں کی یہ بری عادت زور پکڑ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن جب فاتی اور بلّو سکول سے آئے تو امی نےخوشخبری سنائی۔
"شام کو آپ کی پھپھو جان آرہی ہیں۔ رات ہمارے یہاں رکیں گی۔ پھر کل صبح ہم ساحل سمندر کی سیر کرنے جائیں گے۔ انشاءاللہ!‘‘
"یا ہو! زبردست!" دونوں نے خوشی سے نعرہ لگایا۔
پھر اسی خوشی میں انہوں نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور ہوم ورک کرنے لگے۔ شام کو دونوں، پھپھو کے استقبال کے لیے اچھے اچھے کپڑے پہن کر تیار ہو گئے۔ ان کے کزن نوید اور شمائلہ بھی توآرہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نہیں! یہ پانی ضائع نہیں کرو۔" بلو منرل واٹر کی بوتل سے پانی گرا رہا تھا جب ایک آواز آئی۔
بلو نے دیکھا۔ یہ وہی اونٹ والا تھا جس پر فاتی بلو شمائلہ اور نوید نے ابھی ابھی سواری کی تھی۔
"کیوں! میں تو پانی گراؤں گا بس مجھے تو مزہ آرہا ہے !" بلّو نے ہٹ دھرمی سے کہا اور یہاں وہاں پانی گرانا شروع کر دیا۔
"نہیں خدا کے لیے رک جاو۔ پانی مت گراؤ۔" اونٹ والا اب اداس نظر آرہا تھا۔
"کیوں آپ کیوں منع کر رہے ہیں۔" اب کہ نوید نے پوچھا۔ بلّو بھی اس کی اداسی سے پریشان ہو گیا تھا۔
"کیونکہ میں ریگستان سے آیا ہوں۔ وہاں پانی ختم ہو گیا ہے۔ اگر تمھارے پاس اتنا صاف اور زیادہ پانی ہے تو تم اس کی قدر کرو۔ یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ ہمیں یعنی ریگستان کے لوگوں کو پانی لانے کے لیے کئی گھنٹے چلنا پڑتا ہے۔ تب جا کر کیچڑ اور مٹی والا پانی ملتا ہے۔ میری چھوٹی سی بیٹی وہی گندا پانی پی کر مر گئی تھی۔ تم یہ صاف پانی کیوں ضائع کرتے ہو؟ آہ!کاش تم سمجھ جاؤ کہ پانی کتنی بڑی نعمت ہے۔" یہ کہہ کر اونٹ والے نے اپنے آنسو صاف کیے اور اونٹ کو لے کر ایک طرف چل پڑا۔
فاتی اور شمائلہ نے بھی اونٹ والے کی ساری بات سن لی تھی۔سبھی اداس تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر پھپھو لوگوں نے سامان سمیٹا اور اپنے گھر لوٹ گئے۔ اگلے دن فاتی اور بلّو نے سکول جانا تھا۔
اگلے دن حسب معمول امی نے فاتی اور بلّو کو اٹھایا اور وضو کرنے کا کہہ کر کچن میں چلی گئیں۔
تھوڑی دیر بعد امی نے کچن سے جھانک کر دیکھا۔
فاتی بلّو سے کہہ رہی تھی۔
"نلکا تو بند کر دو جب سر کا مسح کر رہے ہو۔"
"ہاں میں کرنے ہی والا تھا۔ تم بھی تو دانت صاف کرتے وقت نلکا کھلا۔۔۔۔"
"جی نہیں!" فاتی نے تیزی سے کہا۔ "آج میں نے نل بند کر کے دانت صاف کیے ہیں۔ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ پانی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔"
"ہاں مجھے بھی!" بلو نے وضو مکمل کر کے نل کو اچھی طرح بند کرتے ہوئے کہا۔
"ویسے وہ اونٹ والا اچھا تھا ناں! اس سے پھر کبھی دوبارہ۔ملیں گے۔" نماز پڑھ کر بلو نے کہا تو فاتی ہنستے ہوئے بولی۔
"ہاں مل لیں گے لیکن اس بار تم خدا کے لیے اونٹ پر مت بیٹھنا۔ اتنا ڈرتے ہو تم اور شور مچا کر سارا مزہ خراب کر دیتے ہو۔"
""ہاں وہ تو بس!" بلّو کو کوئی جواب نہ سوجھا تو وہ سرکھجا کر رہ گیا۔