arrownew e0بہادر گڑھ نامی ایک شہر میں شیروپہلوان نے اپنی جھوٹی دھاک بٹھارکھی تھی ۔ شیرو لمباچوڑا ، بھاری بھر کم آدمی تھا اور وہ اپنی ظاہری حالت کا فائدہ اٹھا رہاتھا۔ شہرمیں اس نے پہلوانی کے لیے بڑا عالی شان اکھاڑابنایا، جہاں بہت سے لڑکے ورزش کیا کرتے تھے ۔

شیروپہلوان تھوڑی دیر کے لیے آتا تھا ۔ اس کا چوڑاچکلا جسم ، ریشمی لنگی، زریں دوشالہ اورایک ہاتھ میں سونے کی زنجیر دیکھ کر لوگ اس کے رعب میں آجاتے اور اس کاادب لحاظ کرتے ۔ دکان دار بھی اسے بخوشی اُدھاردیتے اور اس کی آؤ بھگت کرتے۔

اس کے اکھاڑے میں ورزش کرنے والے اس کا پرچارکیا کرتے کہ ایسا پہلوان ہے جو صبح وشام ایک پورے بکرے کی یخنی پیتا ہے ،ناشتے میں پچاس انڈے اورایک سیر مکھن کھاتا ہے ، جس نے ایک شیر کا جبڑا ہاتھوں سے مروڑکراس کی مونچھیں اُکھاڑ پھینکی تھیں وغیرہ وغیرہ ۔

بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان اس کاادب کرتے اور اس سے ملاقات کے خواہش مند رہتے ۔ اتنا بڑا پہلوان کسی نے دیکھا تھا نہ سنا۔
ایک دوسرا پہلوان بھی اسی شہر میں آبسا ، مگراس بچارے کو کسی نے گھاس ہی نہیں ڈالی۔ اس نے سوچا کہ اگر بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

 

اس نے بڑا ادب اور احترام واہتمام کے ساتھ شیروپہلوان کو مقابلے کی دعوت بھیجی ۔ شہر کے چوک میں اس مقابلے کااعلان ہوا، جہاں نئے پہلوان نے کہا : بھائیو! آپ کے شہر کا شیروپہلوان تو دوردور مشہور ہے ۔ میں تو ایک گمنام پہلوان ہوں اور شیروپہلوان کاشاگرد بننا چاہتا ہوں۔

شیرو پہلوان سے ہارنا بھی میرے لیے بڑی عزت کی بات ہے ۔
تمام شہریوں نے اتفاق کیاکہ ملاقات کے بعد مقابلے ضرور ہوناچاہتے ہیں۔ ویسے بھی یہ دُبلا پتلا پہلوان ہمارے شیرو کاکیا بگاڑ سکتا ہے ۔ شیروپہلوان کو بھی یہ دعوت قبول کرنی پڑی ۔


نئے پہلوان پرزبردست رُعب ڈالنے کے لیے شیرپہلوان کے شاگردوں نے زبردست جلوس نکالا ۔ شیروکو زرق برق لباس پہناکر ہاتھی پر بٹھایا۔ بینڈ باجے کے ساتھ جلوس گشت پر نکلا۔ دس پندرہ شاگرد آگے آگے بھنگڑا ڈال رہے تھے اور باقی پندرہ بیس شاگرد لہک لہک کرگانا گارہے تھے ۔


ہمارا شیرو جیتے گا، جیتے گابھئی جیتے گا
سامنے جو بھی آئے گا، اپنے منھ کی کھائے گا
ہمارا شیرو جیتے گا، جیتے گا بھئی جیتے گا
بازاروں اور گلیوں کو سجایا گیا۔ یہ سب باتیں نئے پہلوان کی ہمت پست کرنے کے لیے کافی تھیں ۔

نئے پہلوان نے اکھاڑے میں اُتر کر بڑے ادب سے شیرو کوسلام کیا۔ جھک کر ہاتھ ملایا۔ دونوں پہلوان ایک دوسرے کے گرد چکر کاٹنے لگے اور مناسب داؤپیچ تلاش کرتے رہے ۔ یکایک نئے پہلوان نے شیرو کو اپنے کندھے پراُٹھایا اور بوری کی طرح دھڑام سے فرش پر پھینک دیا۔

شیرو ک ساری شیخی دھری رہ گئی ۔ تماشائیوں نے نعرہ لگایا: غرور کاسر نیچا ۔
شیرو دیر تک زمین پر پڑا رہا۔ اس کے شاگردوں نے اس کازریں دوشالہ اُوپر ڈال دیا۔ اگلے دن سے شیرو شہر میں کہیں نظر نہیں آیا۔ بے چارہ کس منھ سے نظرآیا۔

یہ ہوتاہے جھوٹ ، شیخی اور بڑے بول کا انجام۔