میری چھوٹی بہن شنّو بڑی باتونی لڑکی ہے۔ ابھی اسکول سے آ کر بستہ رکھا بھی نہ تھا کہ اسکول کا قصہ لے بیٹھی۔
امی جان جھنجھلا کر بولیں۔ ’’اے لڑکی ! تجھے کیا بھوک نہیں لگتی؟ دوسروں کے بچے اسکول سے آتے ہی کھانا مانگتے ہیں، لیکن تو ہے کہ باتیں کئے جا رہی ہے، پہلے کھانا کھا لے، پھر بک بک کرنا۔ ‘‘
شنو کھانا کھانے کے لئے بیٹھ تو گئی مگر کیا مجال جو کھانا کھاتے وقت بھی اُس کی زبان بند رہتی، کوئی سُنے یا نہ سُنے اُسے اِس کی پرواہ نہیں، اُس کا کام تو بولنا ہے، وہ بولنے سے کبھی نہیں تھکتی، لگاتار بولتی رہتی ہے۔
مجھے آپ بچوں کے لیے ایک کہانی لکھنی تھی لیکن اس کے بولتے رہنے سے میں کہانی نہیں لکھ پا رہا تھا۔
پہلے تو میں نے اسے بُلا کر سمجھایا۔ ’’شنو ! دیکھو، بچوں کے لئے ایک کہانی لکھنی ہے، تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو جاؤ۔ ‘‘ مگر وہ نہ مانی، قینچی کی طرح اُس کی زبان چلتی رہی، میں نے پھر اُسے بلایا اور کہا۔
’’شنو اگر تم آدھے گھنٹے کے لئے خاموش ہو جاؤ تو میں تمہیں دس روپے چاکلیٹ لانے کے لیے دوں گا، اِس وقت دو بجے ہیں، تم صرف ڈھائی بجے تک خاموش رہو۔ ‘‘
یہ تیر صحیح نشانے پر بیٹھا۔ وہ فوراً مان گئی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اِدھر میں کہانی لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ لکھنؤ سے میرے بڑے بھائی رشید احمد صاحب آ گئے، وہ اس باتونی لڑکی کی باتوں کے بہت دلدادہ ہیں، اس لئے آتے ہی مجھ سے پوچھ بیٹھے۔
’’رئیس ! شنو کہاں ہے ؟‘‘
میں نے بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے۔
جب رشید بھائی کمرے میں داخل ہوئے تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خاموش میز پر سر رکھے، آنکھیں بند کئے کرسی پر بیٹھی ہوئی ہے۔
رشید بھائی بولے۔ ’’شنو! دیکھو میں تمہارے لئے کیا کیا لایا ہوں۔ ‘‘
رشید بھائی کی آواز سن کر شنو نے اپنا سر اٹھایا اور اشارے سے سلام کرنے کے بعد اشارے ہی سے کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا۔
رشید بھائی یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ وہ کچھ چلّاتے ہوئے بولے۔ ’’ شنو! تم بولتی کیوں نہیں ہو؟کیا بات ہے شنو! ‘‘
مگر اِس وقت یہ باتونی لڑکی بالکل خاموش تھی۔ اس پر رشید بھائی اور بھی گھبرا گئے۔ لہٰذا وہ چلّاتے ہوئے بولے۔
’’امی جان! نرگس آپا، عارفہ، دیکھئے شنو کو کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مجھے بھی آواز لگائی۔
’’ارے رئیس، یہاں آؤ ! دیکھو شنو کو کیا ہو گیا ہے ؟‘‘
رشید بھائی کی آواز سن کر سبھی لوگ شنو کے کمرے میں آ کر جمع ہو گئے۔ سبھی لوگ شنو کو خاموش دیکھ کر فکر مند تھے کہ آخر اسے ہوا کیا ہے، کہیں خدا نخواستہ گوں گی تو نہیں ہو گئی ہے !
لیکن میں ایک کنارے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اِس پر رشید بھائی کی آنکھیں لال پیلی ہونے لگیں۔ وہ مجھے کھا جانے والی نگاہوں سے گھورنے لگے۔
یہ دیکھنا تھا کہ میری تو حالت بُری ہو گئی۔ میں نے فوراً اصل بات بتا دی کہ شنو نے مجھ سے آدھے گھنٹے تک خاموش رہنے کا وعدہ کیا ہے لیکن کسی کو بھی میری بات پر یقین نہیں آیا۔ چنانچہ رشید بھائی بولے۔
’’شنو! کیا رئیس صحیح کہہ رہے ہیں ؟ بولو نہ میں 10 کے بدلے 100 روپے دوں گا، یہ لو 100روپے کا نوٹ۔ ‘‘
اِس پر شنو مسکرائی اور ہاتھ بڑھا کر100روپے کا نوٹ لے لیا، لیکن کچھ بولی نہیں۔ اسی خاموشی میں وقت گزرتا رہا اور گھر والوں کی فکر بڑھتی رہی۔ اچانک دیوار گھڑی نے ٹن سے آدھا گھنٹے کا الارم بجایا۔ الارم بجنا تھا کہ وہ تقریباً چیختے ہوئے رشید بھائی کی طرف لپکی اور بولی۔
’’بھائی جان… آپ میرے لئے کیا لائے ہیں ؟‘‘
پھر بجائے اس کے کہ کوئی اس سے خاموش رہنے کی وجہ پوچھتا، اس نے خود ہی اپنی عادت کے مطابق بولنا شروع کر دیا۔
’’بھائی جان! آپ ناراض نہ ہوں، میں اس لئے نہیں بول رہی تھی کہ میں نے آدھے گھنٹے تک خاموش رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب آپ خود ہی بتائیے اگر میں اپنا وعدہ نہ نبھاتی تو آپ لوگ مجھے جھوٹا اور وعدہ خلاف کہتے۔ ‘‘
اُس کی اس سمجھ داری سے خوش ہو کر امی جان نے اسے ممتا بھری نگاہوں سے دیکھا اور اس کی پیشانی کو چومتے ہوئے کہا۔
’’خدا تمہاری جیسی اولاد سب کو دے۔ آمین!‘‘