! سوری چنو منو

          Print

احمد نے پہلے چنو کو پنجرے سے نکالا اور پھر منو کو۔ دونوں چوزے دوڑ کر اس کے پاس چلے آئے۔ احمد نے پیار سے دونوں کو ہاتھوں میں اٹھا لیا اور کھیلنے لگا۔ پھر اس نے دونوں کو سحری کے طور پر باجرہ کھلایا اور پانی پلایا۔ پھر خوشی خوشی انہیں واپس پنجرے میں بند کر کے ہاتھ دھونے چلا گیا۔

’’احمد بیٹا! تم آج بہت خوش نظر آرہے ہو۔ ‘‘ امی جان

نے پوچھا۔

احمد نے دسترخوان پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’جی امی جان! آج میں بھی روزہ رکھوں گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے بیٹا! جیسے ہمار ے احمد کی مرضی!‘‘ امی نے پیار سے کہا۔

عصر کے بعد احمد ابو جان کے ساتھ بازار گیا اور افطاری کا بہت سارا سامان لایا جس میں چنو اور منو کے لیے  دو گفٹ بھی تھے۔ایک چھوٹا سا سرخ رنگ کا پنجرہ اور دوسرا ایک سنہری برتن۔ پھر اس نے امی جان کے ساتھ کام میں مدد کی۔

افطاری کے لیے جب سب بیٹھے تو احمد نظر نہیں آرہا تھا۔ امی جان احمد کو ڈھونڈتی ہوئی صحن کی طر ف آئیں تو وہ  ر و رہا تھا۔

’’احمد بیٹا! کیا ہوا؟  تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ امی جان نے قریب آتے ہوئے  فکر مندی سے پوچھا  تو احمد نے دونوں  ہاتھ آگے کر دیے۔ چنو اور منو اس کے ہاتھوں میں تھے ۔ وہ بہت نڈھال اور کمزور سے  دکھائی دے رہے تھے۔ 

’’امی جان! آج میں نے چنو منو کو بھی سحری کروائی تھی اور روزہ رکھوایا۔ پھر ان کے لیے گفٹ بھی لے آیا۔ لیکن میرے چنو منو تو حرکت ہی نہیں کر رہے ۔ ‘‘

امی جان نے احمد کے آنسو پوچھتے ہوئے کہا۔’’میرے پیارے بیٹے! اللہ نے دنیا میں بہت ساری مخلوقات پیدا کی ہیں ۔ ان میں سے صرف انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ۔ پھر انسانوں کو دین اسلام کی نعمت عطا کی۔ ان پر دوسری عبادتوں کی طرح روزے بھی فرض کیے۔ میرے  بیٹے! روزے ہم انسانوں کے لیے ہیں۔ یہ معصوم سے جانور تو روزہ نہیں رکھ سکتے۔ اسی لیے یہ بھوک سے  نڈھال ہو گئے ہیں۔‘‘ امی جان نے تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’ٹھیک ہے امی جان! میں سمجھ گیا۔ ‘‘ یہ کہ کر احمد نے سنہری برتن میں جلدی جلدی باجرہ ڈالا ۔ ساتھ ہی پیالے میں پانی ڈالااور چنو منو کے آگے رکھ دیا۔

’’سوری چنو منو! اب میں تم سے روزہ نہیں رکھواؤں گا۔ ‘‘ احمد نے پیار سے کہا اور امی جان کے ساتھ افطاری کے لیے دسترخوان پر بیٹھ گیا۔  


{rsform 7}