arrownew e0شیخ وقاص کسی گہری سوچ میں گم صم بیٹھے تھے تفکر کے آثار ان کے باریش چہرے سے عیاں تھے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی نقطے پر پہنچ نہیں پارہے ۔کافی دیر کی سوچ بچار کے بعد ان کے چہرے پر چمک ابھری گویاکوئی حل پالیاہوانہوں نے اپنے قدم باہرکی طرف بڑھادیے۔
در اصل وہ اپنے اکلوتے بیٹے ہارون کی وجہ سے پریشان تھے جوایک فرمانبردارلڑکاتھاجس سے گھر والے تو کیامحلے اور مکتب والوں کو بھی کوئی شکایت نہیں تھی لیکن چند دن سے اس کے طورطریقے بدلنے لگے تھے۔ کوئی بڑی تبدیلی تو نہ تھی لیکن جہاں سے تبدیلیاں شروع ہونے لگتی ہیں انہیں والدین سے زیادہ کون جانتاہے لہذاانہوں نے دودن اسے خاموشی سے نوٹ کیااور وہ جلد ہی سمجھ چکے تھے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو اس پر اثر انداز ہورہی ہے۔اس رات وہ کمرے میں بیٹھے اس کا انتظارکررہے تھے کہ ہارون گھر میں داخل ہوا۔


’’السلام علیکم باباجان!‘‘
’’وعلیکم سلام ۔اندر آجاؤ بیٹا!‘‘
’’کیسے ہیں آپ ۔‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔
’’اللہ کا شکر ہے۔ تم سناؤ! کیسی مصروفایت ہیں آج کل تمہاری ؟‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس کا بغور جائزہ لیا۔
جج..جی ! بس ۔‘‘وہ گھبرایا۔ ’’بس پڑھائی ہی ہے۔‘‘اس نے بمشکل بات پوری کی۔
’’ہارون بیٹا! تمھارے دوست آج کل کچھ اچھے نہیں ہیں اور تم بھی ان کے رنگ میں رنگنے لگے ہو ۔ میں نے آپ کو پہلے بھی ان کے ساتھ اٹھنے  بیٹھے سے منع کیا تھا۔ اس وجہ سے مکتب بھی دیر سے پہنچتے ہو۔ابھی بھی تم انہی کے ساتھ کھیل کر آرہے ہو۔ مجھے ماجد انکل بتاچکے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہا تو ہارون خاموش رہا۔
’’تم جانتے ہو اس سے تمھارے کرداراور پڑھائی دونوں کی تباہی ہوگی۔‘‘ اب ان کا لہجہ نرم ہوچکاتھا جس سے ہارون میں بھی جان آگئی کیونکہ وہ نہ صرف بے جاسختی کے قائل نہ تھے بلکہ بچے کو بھرپور جاننے کی کوشش بھی کرتے تاکہ اس کی خامی کودور کیاجاسکے۔
’’کیا؟؟‘‘ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔
’’ہاں بیٹاآپ شاید ایساسمجھتے ہو کہ یہ ہماری عمر کھیلنے کی ہے تو کوئی اس میں دخل دے گاتو تمھاراحق چھینے گا لیکن ہر گز ایسانہیں ہے اور والدین تو ویسے بھی اولاد کی بھلائی چاہتے ہیں ۔‘‘ شیخ وقاص کے لہجے میں بیٹے کے لیے پیار ہی پیار تھا۔
’’بابادوست بنانا گناہ تو نہیں ہے ناں۔ پھر میں ان کے ساتھ بس تھوڑی دیر ہی رہتا ہوں۔‘‘ ہارون نے کہا۔
’’نہیں دوست بناؤ ضرور لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو ملے اسے دوست بنالیاجائے اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ وہ عادتوں کے لحاظ سے کیسے ہیں ۔‘‘
’’ہوسکتاہے میری وجہ سے ان میں بھی کوئی اچھی بات آجائے۔‘‘ ہارون سوچتے ہوئے بولا۔
’’بیٹاآپ کی سوچ تو اچھی ہے لیکن آپ عمر کہ جس حصے سے گزر رہے ہو وہ کچی عمر ہے اس میں انسان  بہت جلدی بھٹک بھی جاتاہے اور میں جان چکاہوں کہ آپ اتنے مضبوط نہیں اگر ہوتے تو ان کی وجہ سے خود گھر دیر سے نہ آتے بلکہ انہیں بھی جلد گھر لوٹنے کاکہتے۔‘‘
انہوں نے پھرکہناشروع کیا۔
’’انسان کی کامیابی میں اس کی صحبت کا بھی بڑاہاتھ ہوتاہے اگر آپ کی صحبت ابھی ہوگی آپ کا کردار بھی اچھاہوگااور بری صحبت آپ سے اچھائی برائی کی تمیز چھین سکتی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ انسان دوست کے دین پر ہوتاہے اگر وہ ٹھیک نہیں ہوگاتو آپ کو بھی خسارہ ہوگا۔ پھر آپ پچھتاؤگے جیساکہ اللہ نے فرمایاہے کہ انسان پچھتاکر کہے گا کہ’’لم اتخذافلانا‘‘میں نے فلان کو دوست کیوں بنایالیکن اس وقت پچھتانا کام نہیں آئے گالہذاپچھتاوے سے بہتر احتیاط ہے جو آپ کو ابھی سے کرنی ہوگی۔‘‘
’’پھر میں کیاکروں بابا۔میں بور ہوجاؤں گا ۔‘‘ ہارون کے چہرے پر ندامت کے آثار واضح تھےلیکن وہ اتنی آسانی سے اپنے دوستوں کو کیسے چھوڑتا۔
’’یہ لو ! ایک تحفہ! ایک ایسی چیز جو ہر حالت میں آپ کی بہتری میں آپ کاساتھ دے گی اور اس کے ساتھ گزارا ہواوقت آپ کا برباد نہیں ہوگابلکہ وہ آپ کے کام آئے ۔‘‘ یہ کہہ کر بابا نے ٹیبل کی دراز کی طرف ہاتھ بڑھایااور ایک پیکٹ اسے تھماتے ہوئے بولے۔
’’یہ کیا ہے با با! ‘‘ ہارون نے وہ بڑا سا پیکٹ  بابا کے ہاتھ سے پکڑتے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا! یہ میں نےبہت اچھی کتابیں آپ کے لیے منگوائی ہیں۔ کتاب انسان کی بہترین ساتھی ہے مطالعے کی عادت بناؤ جو آپ کے ہر موڑ پر کام آئے گی ۔ بیٹا یہ بہترین دوست بھی ہے اور بہترین استاد بھی۔‘‘
’’شکریہ باباجان۔آپ دنیا کے سب سے اچھے بابا ہیں۔‘‘ہارون نے مسکراتے ہوئے کہااور بابا کے گلے لگ گیا۔