Behtreen Din

  اسکول  میں  ١٤  اگست  پر جشن  کا ماحول تھا  ۔جگمگاتے  سے روشن درو دیوار  تھے  ۔ہر طرف  جھنڈے  لہرا  رہے تھے  ۔ بچیوں کے ہاتھوں میں ہری  جھنڈیاں  تو  بچوں  کے چہرے اور ہاتھوں پر   جھنڈیوں کے نقشے ، سب کی زبان  پر  جشن آزادی  مبارک کا نعرہ  تھا ۔اس خوبصورت  سماں  میں فائق  اسٹیج  پر جوش و خروش  سے تقریر کر رہا  تھا ۔

’’ محترم  سامعین اور ہم  وطنو ! میں اپنی   تقریر  کے آخر  میں  اپنے  خوبصورت  بانی  کے  شاندار  الفاظ  بیان کرنا چاہوں  گا  کہ ١٣ اگست ١٩٤٨  کو اسلامیہ کالج  پشاور  میں تقریر  کرتے ہوے بانی  و   قائد ا عظم محمد علی جناح  نے فرمایا تھا ۔’’ہم نے پاکستان  کا مطالبہ  زمین کا ٹکڑا  حاصل   کرنے  کے  لئے  نہیں کیا   بلکہ  ہم  ایسی جاےٴ پناہ  چاہتے  ہیں جہاں  ہم اسلامی  اصولوں کے مطابق  زندگی بسر  کر سکیں ۔‘‘

’’  میرا پاکستان زندہ  باد!‘‘   نعرہ  لگاتے ہوے  فائق  نے اپنی تقریر  کو ختم  کیا  اور تالیوں  کی گونج  میں  اسٹیج  سے اترتے  ہوئے  دو دن پہلے کا منظر  یاد  آ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی دو دن پہلے ہی تو وہ   بہت پریشان  اپنے کمرے  میں بیٹھا  تھا  کہ ابو جی  کے  آنے  کا پتہ  ہی نہ چلا۔

’’بیٹا  فائق  تم  کیوں  اتنے پریشان   لگ رہے  ہو ؟‘‘ ابو نے پیار سے پوچھا۔

  فائق  نے کہا  ۔’’ ابو جی میں   نے اسکول   میں ١٤ اگست  کے پروگرام  میں حصہ  لیا ہے  اور مجھے  ایک شاندار  تقریر کرنی ہو گی  لیکن  مجھے  تو کچھ  نہیں سمجھ آرہا  کہ کیا  تیاری  کروں ؟  ‘‘

تو ابو  نے بڑے  اطمینان  سے  کہا تھا ۔’’  تم پریشان  نہ ہو  بس دو  رکعت نفل  پرہو  اور الله  سے  دعا  مانگو  ان شاء  الله  کامیابی  تمھا رے  قدم چومے گی  اور میرے بیٹے  تم ہمیشہ  اخلاص ،  محبت  اور محنت سے  جشن  آزادی   کی تیاری  کرتے  ہو  اور الله  اپنے بندوں  کی محنت کبھی  ضائع   نہیں کرتے  ۔‘‘   

اگست  کا مہینہ  شروع ہوتے  ہی  فائق  کو جشنِ آزادی  کی تیاریوں  کی فکر   لگ  جاتی   تھی۔فائق  اپنے  دوستوں کے ساتھ مل کر  اپنے  گلی محلہ  کی صفائی کر کے  جشن آزادی   کے پوسٹر  اور سبز جھنڈے یہاں سے وہاں تک  لگاتا۔    فائق ایک ہمدرد بچہ  تھا  جسے صرف آزادی  منانے  کا خیال  ہی نہیں  بلکہ دوسروں  کی مدد  کرنا  اور سب کو  خوش کرنے  کا خیال  ہمیشہ  رہتا تھا۔محلے میں جتنے  غریب  اور معصوم بچے  ہوتے  ان کو بھی آزادی  کے جشن  میں شامل  کرتا  تحفے تحائف دینا بھی  فائق کی خاص  عادت  تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج جب وہ تقریر میں اول انعام لے کر گھر پہنچا  سب نے اسے بہت مبارک باددی۔ دادا ابو نے اسے دو سوروپے انعام میں دیے۔شام کو فائق گھومنے کے لیے پارک میں گیا تو اس کی نظر ایک بچے پر پڑی تو غبارے بیچ رہا تھا۔ فائق نے اس سے سارے غبارے انعام کی رقم سے خرید لیے تو بچے کی آنکھوں کی چمک دیکھنے والی تھی۔ اس بار کی ۱۴ اگست فائق کے لیے بہترین دنوں میں سے ایک تھی۔