ستارا شیشے کے ڈسپلے میں سجی گلابی فراک کو دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ اُسے احساس تک نہیں ہوا کہ اُسکے پاپا کب سے ہاتھ میں آئسکریم پکڑے اُسکی محویت ٹوٹنے کے منتظر ہیں مگر ستارا ادرگرد سے بے خبر فراک دیکھے جارہی تھی۔

مجبوراََ احسان صاحب کو اُس کی آنکھوں کے سامنے اپنا ہاتھ لہرانا پڑا، تب کہیں جاکر اُنہوں نے فراک سے نظریں ہٹا کر آئسکریم کو دیکھا جو تقریباََ پگھلنے کے قریب تھی۔ پاپا کے ہاتھ سے آئسکریم لے کر وہ گاڑی میں جا بیٹھی، گھر جانے کے بعد بھی وہ فراک اُسکے ذہن میں رہی۔

اُسے بھولنے کی ہر ممکن کوشش کی ،بالآخر مجبوراََ پاپا سے فرمائش کردی کہ وہ اُسے فرمائش کردی کہ وہ اُسے گلابی فراک خرید دیں جسے وہ سکول کے فنکشن میں پہن کر جائے گی۔ صبح احسان صاحب آفس چلے گئے اور  ستاراشام تک اپنی نئی فراک کا انتظار کرتی رہی۔

 

خدا خدا کرکے پاپا کی گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور وہ پلک جھپکتے گاڑی کے پاس جا پہنچی مگر یہ کیا؟ پاپا کے ہاتھ میں فراک کے بجائے MONEY BOX تھا جو پاپا نے اُسکے ہاتھ میں تھمایا اور کہا ؛ میری گڑیا روزانہ اپنی پاکٹ منی سے کچھ رویے اِس منی بکس میں ڈالے گی اور جس دن مطلوبہ رقم جمع جائے گی اُسی شام ہم بازار جا کر فراک لے آئیں گے۔

“ اُس نے سوچا اُسکا انتظار طویل ہوجائے گا مگر وہ پُر امید تھی کہ جلد ہی وہ رقم جمع کرلے گی اور پھر وہ فراک اُسکی ہوگی۔ بالآخر تین مہینے میں اُسکے پاس اتنی رقم اکھٹی ہو گئی تھی کہ وہ بازار جا کر خوبصورت فراک خرید سکتی تھی۔

MONEY BOX اُٹھا کر وہ لاؤنج میں آگئی جہاں پاپا ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہے تھے ۔ اس سے پہلے کہ وہ پاپا سے بازار چلنے کو کہتی پروگرام کے اینکر نے ایک بچے سے بات چیت شروع کردی، وہ ایک کمزور بچہ تھا جسکے پر قمیض بھی موجود نہ تھی وہ سیلاب سے متاثرہ کیمپ میں رہائش پذیر تھا اُسکے ماں باپ اور بہن بھائی کے متعلق کچھ پتہ نہ چل سکا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔

پاپا بازا چلیں ؟ ستارا نے پاپا کو متوجہ کیا، ستارا احسان صاحب اور امینہ بیگم بازار پہنچ گئے۔ بجائے وہ گلابی فراک خریدنے کیلئے گارمنٹس کی دکان پر جاتی وہ گارمنٹس کے ساتھ والی جنرل اسٹور پر چلی گئی۔ وہاں سے کھانے پینے کی ڈھیروں اشیا پیک کروا کر جب وہ گاڑی تک پہنچی تو امینہ بیگم نے حیران کُن نظروں سے اُسکو دیکھا، اُس پرستارا فوراََ بول پڑی ؛ پاپا آپ ہمیں سیلاب سے متاثرہ کیمپ لے جائیں میں وہاں پر یہ چیزیں اُن بچوں کو دینا چاہتی ہوں“ کیا ہوا اگر میں سکول کے فنکشن میں گلابی فراک نہ پہنوں ، میرے پاس اور بہت سے کپڑے ہیں ، میں اُن میں سے کوئی بھی پہن لون گی، مگر میں اپنے جسے بچوں کو اس مصیبت میں تنہا نہیں چھور سکتی۔

یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔سیلاب سے متاثر کیمپ میں ستارا نے بچوں میں وہ پیکٹ تقسیم کئے جو وہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ احسان صاحب نے بھی وہاں موجود بچوں میں رقم تقسیم کی۔ رات میں اُن کی واپسی خاصی دیر سے ہوئی۔ ستارا آتے ہی سو گئی کیونکہ صبح اُسے سکول میں ہونے والے فنکشن میں شرکت کرنا تھی۔

صبح میں امینہ بیگم اُسے اُٹھا کر جاچکی تھیں۔ وہ سُستی سے آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھ بیٹھی۔ اُسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے بیڈ کے ایک طرف وہی گلابی فراک رکھی تھی، اُس نے ہاتھ لگا کر یقین کرنا چاہا کہ آیا یہ واقعی فراک ہی رکھی ہے یا کچھ اور ہے؟ یقین آنے پر وہ جلدی سے بیڈ سے اتر کر کچن کی طرف بھاگی جہاں ماما پاپا ناشتے پر اُس کا انتظار کررہے تھے اور اُسے وہاں اُن کا شکریہ بھی تو ادا کرنا تھا کیونکہ پاپا جان ستارا کیلئے رات کو بالکل ویسی ہی فراک لیکر آئے تھے کیونکہ گلابی فراک اُن کی لاڈلی بیٹی کو بہت پسند تھی۔

اس لئے اسے سرپرائز دیا تھا۔ پیارے بچو! ہم سب کو ایسی نیکیاں کرتے رہنا چاہیے اور اجر اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔