دسمبر کا مہینہ تھا۔اچھی خاصی سردی پڑ رہی تھی۔ مفلر، گرم ٹوپی، گرم کپڑوں میں، ہو ہو ہاہا کی آوازیں نکالتے آتشدان کے سامنے بیٹھے وہ سارے بچے بڑے بهلے لگ رہے تهے۔ ایسے موسم میں بهی وہ پیارے بچے حسین بھائی کا انتظار کررہے تهے۔ عشاء کی نماز ختم ہوئی اور کچھ ہی دیر کے بعد وہ ہال میں آگئے۔ سب نے جلدی سے انهیں سلام کیا۔ وہ جواب دیتے ہوئے بچوں کے قریب جا بیٹھے۔
’’دیکهو بچو! چاند کتنا خوبصورت نظر آرہا ہے اور اس کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی بهی چاروں طرف پهیلی ہوئی ہے۔ پتہ ہے یہ بهی خدا کی ایک بہت بڑی نعمت
ہے۔‘‘انهوں نے کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ بهی اللہ کی ایک نعمت ہے؟‘‘ ماہا نے معصومیت سے پوچھا۔
’’ہاں میری جان! ہر وہ چیز جو ہمیں نفع پہنچائے وہ اللہ کی طرف سے نعمت اور رحمت ہوتی ہے۔‘‘ حسین بهائی نے اسے اپنی گود میں بٹهاتے ہوئے بڑے پیارے سے کہا۔
’’بهائی جلدی سے کہانی سنائیں ناں۔‘‘ عادل کہانی سننے کے لیے سب سے زیادہ بے تاب تها جلدی سے بول پڑا۔
’’ہاں ہاں! کیوں نہیں! ضرور! ‘‘ دراصل حسین بهائی ہر اتوار انهیں ایک نئی اور سبق آموز کہانی سنایا کرتے تهے۔ اسی لیے بچے بڑی بے صبری سے اتوار کی رات کا انتظار کیا کرتے تھے۔
’’یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔ ایک سال بارش نہ ہوئی اور ملک میں قحط پڑگیا۔ اناج کی کمی کی وجہ سے مدینے کے لوگ سخت پریشان ہوئے۔ اسی زمانے میں ایک سودا گر اناج سے لدے ہوئے اونٹ لے کر مدینہ آیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتا چلا تو وہ اس سوداگر کے پاس گئے اور منہ مانگی قیمت دے کر سارا اناج خرید لیا۔
لوگوں کو تو پہلے ہی اناج کی ضرورت تھی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ سارا اناج حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خرید لیا ہے تو وہ آپ کے پاس آئے اور اناج خریدنا چاہا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ ’’ جو قیمت دینا چاہتے ہو وہ وہ مجهے منظور نہیں میں تو یہ اناج اس کے ہاتھ فروخت کروں گا جو مجهے سب سے زیادہ نفع دے گا۔‘‘
حضرت عمررضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے لیکن انهیں بهی آپ نے یہی جواب دیا۔ لوگوں کو حضرت عثمان کا یہ جواب سن کر بہت مایوسی ہوئی۔ وہ حیران تھے کہ حضرت عثمان تو سخی اور غریبوں کے بہت ہمدرد ہیں۔ وہ لوگوں کو مجبور اور بے بس دیکھ کر اپنے اناج کی زیادہ سے زیادہ قیمت کیوں وصول کرنا چاہتے ہیں؟ جب لوگ مایوس ہوکر چلے گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اناج سے لدے ہوئے اونٹوں کو شہر میں لائے اور کہا ۔ ’’جس شخص کو جتنے اناج کی ضرورت ہو آئے اور مفت لے جائے۔ ‘‘ آن کی آن میں بهیڑ لگ گئی اور دیکهتے ہی دیکهتے سارا اناج تقسیم ہوگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حیران ہوکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا۔ ’’آپ تو یہ کہہ رہے تهے کہ یہ اناج اس کے ہاتھ فروخت کروں گا جو سب سے زیادہ نفع دے گا اور اب مفت تقسیم کررہے ہیں؟‘‘
حضرت عثمان نے جواب دیا۔ میں نے جو کہا تھا وہی کیا ہے۔ میں اپنے اناج پر زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے اسے اللہ کے نام پر مفت تقسیم کردیا ہے۔ اب اللہ مجهے اس کا ستر گنا ثواب دے گا۔ آپ ہی بتائیے، کیا کوئی اور خریدار مجهے اتنا نفع دے سکتا تها؟ ‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر حضرت عمر حیران رہ گئے اور خوش ہوکر کہنے لگے۔ ’’ ہاں واقعی تم نے سب سے زیادہ نفع کمایا ہے۔‘‘
’’سچ بهائی جان!یہ تو سب سے بڑا نفع تها۔‘‘ آیان نے کچھ سمجهتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہمارے پاس تو کوئی ایسا سامان نہیں جسے ہم صدقہ کرکے ثواب حاصل کرسکے۔‘‘ ماہا نے سوال کیا۔
’’ ضروری نہیں کہ آپ صرف صدقہ کرکے ہی ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔ مشکل وقت میں اپنے دوستوں کی مدد کرنا، بڑوں کا کہنا ماننا، ان کا احترام کرنا، اللہ کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں کا شکر ادا کرنا یہ سب ثواب کے کام ہیں۔ ‘‘ حسین بهائی نے انهیں سمجھاتے ہوئے کہا۔بڑی امی نے آواز دی تو سب اپنے بستر کی طرف بڑھے۔ اس طرح اس پیاری سی سرد رات کا اختتام ہوا۔
{rsform 7}