’’سٹوڈنٹس! اپنا کلاس ورک مانیٹر کو جمع کروادیں۔‘‘ سائنس کے سر ذیشان نے کہا تو سب بچے جلدی جلدی کاپیاں بند کرنے لگے۔ بلو نے بھی حاشیے کے اوپر تاریخ اور ’’کلاس ورک‘‘ لکھا اور کاپی بند کرکے مانیٹر احسن کا انتظار کرنے لگا جو کاپیاں اکھٹی کرتے کرتے اِسی سمت آرہا تھا۔ اگلا پیرڈ سر حسیب کا تھا جو اسلامیات پڑھایا کرتے تھے۔
’’اب آپ لوگ باب ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم‘‘ کی مشق نمبر 4 اپنی نوٹ بکس میں لکھیں۔ ‘‘ سر نے بک بند کرکے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہائیں! میری پنسل کہاں گئی؟ابھی تو میرے پاستھی۔‘‘ بلو نے پریشانی سے سوچا۔
’’فاتی! تم نے میری پنسل تو نہیں دیکھی؟‘‘ اس نے سرگوشی میں آگے والی کرسی پر بیٹھی فاتی سے پوچھا۔
’’نہیں! تمھارے پاس تھی ناں۔ تم نے اردو کا کام اسی سے تو کیا ہے۔‘‘ فاتی نے پیچھے مڑے بغیر سرگوشی میں جواب دیا۔
’’ہاں! لیکن ۔۔‘‘ بلو نے کچھ کہنا چاہا مگر سر حسیب ان کےسر پر آکھڑے ہوئے۔
’’کیا ہورہا ہے! بلال ! آپ پریشان سے لگ رہے ہیں۔‘‘ سر نے پیار سے پوچھا تو بلو کے تو آنسو ہی نکل آئے۔
’’سر! میری پنسل نہیں مل رہی ۔ وہ میری نئی پنسل تھی۔میرے مامو ں جان نے مجھے تحفے میں دی تھی۔‘‘ بلو روہانسا ہو چکا تھا۔
’’اوہ! کوئی بات نہیں۔ یہیں ہو گی۔ فی الوقت آپ کسی سے پنسل لے کر کام مکمل کریں۔ بریک میں اچھی طرح بیگ میں چیک کیجیے گا۔ انشاء اللہ مل جائے گی۔‘‘ سر حسیب نے تسلی دی اور آگے بڑھ گئے۔
اس وقت تو بلو نے فاتی سے ایک فالتو پنسل لے کر کام مکمل کر لیا لیکن اندر سے وہ بے حد اداس تھا۔
’’بلو! آؤ فٹ بال کھیلیں۔‘‘ یہ کاشان تھا۔ اس کا گہر ا دوست۔ بریک ہو چکی تھی۔ فاتی کینٹین سےاپنے اور بلو کے لیے بند سموسہ لینے جا چکی تھی۔
’’نہیں! مجھے اپنی پنسل تلاش کرنی ہے۔ ‘‘ یہ کہ کر اس نے بیگ سے ساری کاپیاں نکال کر میز پر رکھ دیں۔ بیگ کو اچھی طرح جھاڑا۔ سارے خانے چیک کر لیے۔ حتیٰ کہ لنچ باکس والا خانہ بھی دیکھ لیا۔ لیکن پنسل نہ ملی۔
اتنے میں فاتی بند سموسہ لے آئی لیکن بلو کا کھانے کو بالکل دل نہیں کر رہا تھا۔ اسے رہ رہ کر اپنی نئی چمکیلی پنسل یاد آرہی تھی۔ اس نے تواس کے ربر کو استعمال کرنے کی بجائے الگ سےپرانا سا ربر رکھ لیا تھا گلابی ربر گھس کر کالا نہ ہو جائے۔
بریک کے بعد پی ٹی ہوئی ۔ اس کے بعدا ٓخری پیریڈ اسلامیات کاتھا جو سر حسیب ہی لیا کرتے تھے۔سوال نمبر ۵ کاجواب لکھنے کے دوران اچانک بلو کی نظر اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے عمر پر پڑی۔
’’یہ میری پنسل ہے!سر! عمر نے میری پنسل لے لی ہے۔‘‘ اچانک بلو اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
سر حسیب نے کتاب سائیڈ پر رکھ دی اور بولے۔’’آپ کو کیسے پتہ ہے کہ یہ پنسل آپ کی ہے۔‘‘
عمر بھی اپنی سیٹ پر کھڑا ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے پر حیرانی تھی۔
’’سر! دوسرے پیریڈ سے میری پنسل غائب ہے۔ اب یہ عمر کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے میری پنسل چوری کی ہے۔‘‘ بلو نے جوش سے کہا۔
’’لیکن سر! یہ تو میری اپنی پنسل ہے۔ ایک ہفتے سے میرے پاس ہے۔ میں نے کوئی چوری نہیں کی ۔‘‘ عمر کے لہجے میں ناگواری تھی۔ پوری کلاس اس کو دیکھ رہی تھی۔
بلو نےغور سے عمر کے ہاتھ میں پکڑی پنسل کی طرف دیکھا۔ اس کا گلابی ربر ایک سائیڈ سے سیاہ ہو گیا تھا۔ ’’اف! اس نے میرا ربر بھی خراب کر دیا۔‘‘ بلو نے غصے سے سوچا۔
اتنے میں چپڑاسی نے اندر آکر سر حسیب کو پرنسپل کا کوئی پیغام دیا۔ انہوں نے کتاب میز پر رکھ کر کلاس کو خاموش رہنے کی تلقین کی اور باہر چلے گئے۔
ابھی سر حسیب واپس آئے ہی تھے کہ چھٹی کی بیل بج گئی اور سب بچے بیگ اٹھا کر کلاس روم سے نکلنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر بھی بلو چپ چپ رہا۔ شام کو فاتی نے ہوم ورک کرتے ہوئے کہا۔
’’بلو! تمھیں عمر کو ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘
’’کیوں! مجھے پتہ ہے وہ میری پنسل ہے۔ عمر نے میری پنسل چوری کی ہے۔‘‘ بلو جذباتی ہو رہا تھا۔
’’جی نہیں! امی جان کہتی ہیں ایسے ہی کسی پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ کیا پتہ ہمیں ہی غلط فہمی ہو رہی ہو۔‘‘ فاتی نے اسے سمجھایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح پہلا پیریڈ انگلش کا تھا۔ مس نازیہ انہیں پڑھا رہی تھیں کہ چپڑاسی اندر آیا۔
’’سر حسیب عمر اور بلال کو سٹاف روم میں بلا رہے ہیں۔‘‘
جب وہ دونوں سٹاف روم میں پہنچے تو سر حسیب نے کہا۔
’’دیکھیں بلال بیٹا! یہ رہی آپ کی پنسل جو جلدی میں آپ نے اردو کی کاپی میں ہی چھوڑ دی تھی۔ اب بتائیں ! کیا آپ کو عمر پر یوں چوری کا الزام لگانا چاہیے تھا جبکہ آپ کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں تھا؟‘‘ سر حسیب نے کچھ سختی سے پوچھا تو بلو کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’ نہیں سر!‘‘ اس نے سر جھکاتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو پھر آپ عمر سے سوری کریں اور وعد ہ کریں کہ آئندہ کبھی کسی پر یوں بغیر سوچے سمجھے الزام نہیں لگائیں گے۔ ‘‘ سر حسیب نے ہدایت کی۔
’’سوری عمر! مجھے معاف کر دو۔‘‘ بلو نے شرمندگی سےکہا تو عمر نے مسکراتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا۔
’’کوئی بات نہیں! بلکہ اچھی بات تو یہ ہے کہ تمھاری پنسل مل گئی ہے ۔‘‘
’’ہاں! اچھی نہیں بہت اچھی بات!‘‘ بلو نے بھی مسکراتے ہوئے کہا اور دونوں کلاس کی جانب روانہ ہو گئے۔
{rsform 7}