arrownew e0’’ابوجان میرا گفٹ کہاں ہے؟کون سے بیگ میں ہے؟ کتنا بڑا گفٹ ہے؟‘‘

حسن نے سارے سوالات ایک ساتھ کرکے اپنا گفٹ ڈھونڈنا شروع کردیا۔

طلحہ بھی کمرے میں آکر بیگ کی طرف لپکا ۔

’’ ابو جان میرے  لے گفٹ نہیں لائے؟‘‘

’’اس بار تو آپ عید کے دن گھر پرنہیں تھے اور عیدی بھی ہمیں نہیں ملی۔ہمیں ڈبل ڈبل گفٹ ملنے چاہیے۔‘‘  انیسہ نے معصومانہ انداز میں کہا۔

 

’’آپ سب کے لے گفٹ لے کر آیا ہوں۔‘‘ ابو جان نے سب کو پیار کرتے ہوئے  کہا۔

’’لیکن گفٹ ملنے سے پہلے بتاو ٔ تو ذرا کہ اپنے کئےہوئےوعدوں کو کس کس نے پورا کیا ہے؟جس نے وعدہ نبھایا اس کو گفٹ ملے گا اور جس نے وعدہ پورا نہیں کیاوہ عیدی لے گا نہ گفٹ۔‘‘

ابو جان نے حتمی فیصلہ سنا دیا۔

’’ میں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے ۔میں نے پورے رمضان نماز پابندی کے ساتھ باجماعت بھی پڑھی  ہے اور روزانہ قرآن کی تلاوت کی ہے ایک دن بھی ناغہ نہیں کیا۔‘‘

حسن نے خوشی خوشی بتایا۔

انیسہ سے بھی خاموش نہ رہا گیا ابو جان کے پاس بیٹھ کر کہنے لگی ۔’’ابو جان!پورے رمضان میں نے امی کی ساتھ کام کیا ہے۔‘‘

 طلحہ نے چھیڑتے ہوئے کہا ۔’’تم نے کام کیا یا کام خراب کیا!‘‘

ابو بکربھی  جھٹ سے بولا ۔’’ہاں ہاں وہ جو گلاس توڑا تھا۔‘‘

’’ہاہاہا ‘‘دونوں بھائی ہنس پڑے۔ابو جان بھی مسکرانے لگے۔

انیسہ منہ بسورتے ہوئے بولی ۔’’ابوجان وہ تو غلطی سے گر گیا تھانا۔لیکن میں افطاری میں چٹنی بناتی اور سحری میں برتن بھی دھوتی تھی۔‘‘ 

ابو مسکرائے۔ ’’میری پیاری بیٹی کو میں جانتا ہوں اس نے اپنی امی کی خوب مدد کی ہوگی ۔‘‘

پھر ابو جان نے کہا۔

’’اچھا آپ دونوں نے اپنے وعدے پورے کئے ۔اب طلحہ کی باری ہے۔ ‘‘

یہ سنتے ہی طلحہ کو ایسی چپ لگ گئی کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔

حسن نے گھور کر دیکھا ۔’’اب بولنا شروع بھی کرو تاکہ ہم اپنے گفٹ لے لیں یا بتا دو کہ تم نے اپنا وعدہ ہی نہیں نبھایا۔‘‘

’’وہ وہ ناں ابو جان!‘‘ آخر طلحہ نے کہا۔’’ میں نے کیا وعدہ کیا تھا میں تو بھول گیا ہوں۔پلیز حسن تم بتادونا کیا تمھیں میرا وعدہ یاد ہے ؟‘‘

انیسہ ہنسنے لگی ۔’’کیسے لگا اب اپنی باری پر بھول گئے مجھ پر ہنسے تھے نا۔حسن بھی چھپ چھپ کر ہنس رہا تھا ہاں بھائی اب اپنی باری پر کیا ہوگیا۔‘‘

’’بتاؤ بتاؤ‘‘ حسن نے بھی چھیڑا توطلحہ روہانستے ہوئے  کہنے لگا ۔’’تم بھی میرے ساتھ ہنسے تھے۔‘‘

 طلحہ نے کہا۔’’سوری میری چھوٹی بہنا مجھے تم پر نہیں ہنسنا چاہئے تھا ۔‘‘

’’کوئی بات نہیں بھائی!‘‘  انسیہ بولی۔

حسن نے کہا۔ ’’جی بالکل بہن بھائی تو دوستوں کی طرح ہوتے ہیں ہنسی مذاق تو چلتا رہتا ہے۔ لیکن ایسا مذاق نہ ہو کہ کسی کا دل دکھ جائے،یا اس میں جھوٹ بولا جائے تو اس مذاق پر گناہ ملے گااور دوسروں کی دل آزاری بھی ہوگی۔‘‘

یکدم طلحہ اچھل کر صوفے پر بیٹھا۔

’’ مجھے اپنا کیا وعدہ یاد آگیا۔اب میرا ابو جان سے کیا ہوا وعدہ سنوگے تو تم دونوں اپنے گفٹ بھی مجھے دےدوگے۔‘‘ طلحہ نے شرارتی انداز سے کہا۔

ابو جان کشن پر ٹیک لگا کر سب کی باتیں سن کر محظوظ ہورہےتھے ۔

’’میں نے پورے رمضان محلہ کے غریب گھروں میں ایک ایک کرکے افطاری دی ہے۔اورعثمان چاچو کے ساتھ کنواں سے پانی نکالا کر لوگوں کو دیا ہے۔اور ہاں پرندوں کو باجرہ اور پانی بھی ڈالا ہے۔‘‘

حسن نے پوچھا۔’’ کیا تمھارا روزہ نہیں ہوتا تھا ؟ اتنے سارے کام تم نے کیسے کر لیے؟‘‘

’’ کیوں نہیں روزے میں تو ڈبل اجر ملتا ہے دوسروں کی مدد کرنے سے۔‘‘ طلحہ نے خوشی سے کہا۔

آخر ابو جان جو بہت دیر سے خاموش تھے، مسکراتے ہوئے بولے۔

’’شاباش! تم نے واقعی بہت اچھے کام کیے۔ خدمت خلق ایک عظیم کام ہے۔آپ سب کو کو لیٹ  عیدی بھی ملے گی اور اچھے اچھے کام کرنے پر گفٹ بھی ۔لیکن اب ایک اور وعدہ کرنا ہوگا مجھ سے تاکہ جیسے مجھے خوش کیا اللہ تعالی بھی تم سب سے پھر بہت خوش ہوگا اور بہت سارے گفٹ بھی دےگا۔‘‘

’’واہ ابو جان پھر تو وعدہ پکا میں پورا کروں گا بتائیں نا ں!‘‘ حسن نے سر ہلا کر کہا۔

’’ہاں میرے پیارے بچو ! ہم سب رمضان میں روزے رکھتے ہیں اور اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔ پھر اللہ پاک ہمیں ایک گفٹ عیدالفطر دیتے ہیں جس میں سب خوشیاں مناتے ہیں۔لیکن یاد رکھنا عبادت اور نیک کام صرف رمضان میں نہیں کرتے بلکہ اسکے بعد بھی کرنے ہیں۔ ہمارے پاس باقی گیارہ مہینے ہیں ہمیں ان سب میں اللہ کی عبادت کرنی ہے۔اللہ کو راضی کرنے والے کام کرنے ہے، والدین کا کہنا ماننا ہے، غریبوں کی مدد کرنی ہے۔ تب ہی جاکر ہمارے رمضان کے اعمال کا زیادہ اثر ہماری زندگی پر ہوگا۔

انیسہ بولی۔’’ جی ابو جان میری ٹیچر نے بھی کہا تھا کہ رمضان  میں جو اچھے کام کروگے وہی کام پورے سال کرنا ہوگا توہی ہم اچھے بچے بنیں گے۔‘‘

ابو جان نے پوچھا۔ ’’تو کیا وعدہ کرتے ہیں آپ سب کہ رمضان کے بعد بھی یونہی شوق سے عبادت کریں گے اور اللہ کے بندوں کی خدمت کریں گے؟‘‘

تینوں بچوں نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔’’جی ہاں!ہم سب کا پکا وعدہ ہے ابو جان۔انشاء اللہ!‘‘