butterfly

اس Category میں ننھے منے کم سن بچوں کی کہانیاں شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتوں کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے سبق سیکھنے ہوں تو یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

arrownew e0میرے سوہنے موہنے بچو! رات سے جنگل میں بڑے زوروں کی ہوا چل رہی تھی۔ ایک چھوٹی سی فاختہ اس بات سے پریشان سی تھی کہ کہیں اس کا گھونسلہ ٹوٹ نہ جائے۔ جب صبح ہوئی تو بارش ہونے لگی۔ فاختہ کے بچے بھوکے تھے۔ فاختہ کو ان کے لیے کھانا لینے جانا تھا۔ اس نے سوچا۔ ساتھ والے توتے سے کہہ دیتی ہوں کہ میرے گھر کا خیال رکھے۔ تیز ہوا  اور بارش سے گھونسلہ گر نہ جائے۔

وہ توتے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔

’’پیارے بھائی! میں کھانا لینے جارہی ہوں۔ کیا آپ میرے گھر کا خیال رکھیں گے؟ میں کوشش کروں گی کہ جلدی واپس آسکوں۔‘‘

توتے میاں  ابھی ابھی سو کر اٹھے تھے۔ انہوں نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے ہرن  کی جس کو رات کے وقت ستارے دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ اکثر اپنے کمرے کی کھڑکی سے  آسمان کی طرف دیکھتا رہتا ۔ جب سب سو جاتے تو ہرن جاگتا رہتا اور ستاروں سے باتیں کر تا رہتا ۔

ایک دن اس نے اپنی امی جان سے پوچھا۔

’’امی جان! کیا میں سب کے سب ستارے گن سکتا ہوں؟ ‘‘

امی جان نے کہا۔

’’نہیں! پیارے بیٹے! ستارے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘

’’کیوں کیوں؟ میں ستارے گن سکتا ہوں۔ مجھے ساری گنتی آتی ہے۔ پورے ایک ہزار تک! سنیں! ایک دو تین چار پانچ چھ سات۔۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے ہرن نے ایک ہزار تک گنتی سنا دی۔

امی جان ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں۔

میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے  بچےحامد میاں کی جنہیں پھول بہت پسند تھے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ وہ جہاں بھی پھول دیکھیں بس اسے توڑ کر اپنے پاس رکھ لیں ۔ حامد میاں جب  شام کو باغ کی سیر کرنے جاتے بہت سارے پھول توڑ کر لے آتے۔ مالی انکل نے انہیں بہت سمجھایا لیکن حامد میاں رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ سب کچھ بھول جاتے تھے۔

 ایک دن وہ اپنے دوست علی کے گھر گئے۔ علی کے گھر کے باہر ایک پیاری سی کیاری تھی۔ اس میں بہت سارے پھول لگے ہوئے تھے۔ گلاب کا پھول سرخ رنگ کا تھا۔ گیندے کا پھول نارنجی رنگ کا تھا ۔ ایک طرف سفید موتیے کا پوداتھا۔ بائیں طرف چنبیلی کے پھول لگے ہوئے تھے۔ دائیں طرف گل داؤدی کے پھول تھے۔

 حامد میاں نے جلدی جلدی علی کی امی کا دیا ہوا شربت پیا اور علی کے ساتھ کیاری کی طرف چلے گئے۔

arrownew e0میرے سوہنے موہنے بچو!یہ کہانی ہے ایک پودے کی جو بہت چھوٹا سا تھا۔ وہ لیموں کا پودا تھا۔ جب مالی بابا نے اسے کیاری میں لگایا تو وہ بہت خوش ہوا۔ اسے بہت مزہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد لیموں کے پودے نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے ساتھ آم کا درخت لگا ہوا تھا۔

’’اوہ! یہ تو بہت اونچا ہے! ‘‘

پھرلیموں پودے نے دائیں طرف دیکھا۔ وہاں جامن کا پودا لگا ہوا تھا۔ وہ بھی بہت بڑا تھا۔ لیموں کے پودے سے کافی بڑا۔

’’اوہ! اتنا بڑا !‘‘ لیموں پودے نے کہا اور وہ اداس ہو گیا۔

’’اوں ہوں! میں کب بڑا ہوں گا۔سب مجھ سے بڑے ہیں۔ یہ کیا با ت ہوئی!‘‘

میرے سوہنے موہنے بچو!  یہ کہانی ہے ایک چھوٹے سے بچے عمر کی جو اپنی امی اور دادی جان کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن عمر  صحن میں  گیند سے کھیل رہا تھا کہ اسے ایک آواز آئی۔

’’چوں چوں چوں!‘‘

اس نے دیکھا۔سامنے والی دیوار پر ایک چھوٹی سی چڑیا بیٹھی ہوئی تھی۔شاید  اس کو بھوک لگی تھی۔ عمر نے سوچا۔ میں اس کو دوپہر والے چاول کھلاتا ہوں  جو امی جان نے فریج میں رکھے ہوئے تھے۔

’’امی جان! امی جان! مجھے ایک پلیٹ میں چاول ڈال دیں۔‘‘

میرے سوہنے  موہنےبچو! یہ کہانی ہے اس وقت کی جب ایک پیاری سی کوئل کے گھونسلے میں چار انڈے پڑے ہوئے تھے۔ اس کوئل کا نام کو کو تھا۔ اس دن کوکو کھانا تلاش کرنے کے لیے جانے لگی تو اس نے سوچا۔

’’ایسا نہ ہو کہ کوئی سانپ میرے انڈے آکر کھا جائے۔کیوں نہ میں بی چڑیا سے کہہ دوں کہ میرے انڈوں کا خیال رکھے۔‘‘

بس پھر پیاری کوکو ، بی چڑیا کے گھر گئی ۔ بی چڑیا اسی وقت سو کر اٹھی تھی اور اپنے گھونسلے کی صفائی کر رہی تھی۔کوکو نے کہا۔

’’بی چڑیا ! کیا تم میرے گھونسلے اور انڈوں کا خیال رکھو گی؟ میں کچھ دیر میں آجاؤں گی۔‘‘

بی چڑیا نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولی۔

یونس آج پھر اداس بیٹھا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ آج اس کی ارسلان سے دوستی ہوئی تھی۔ پھر وہ لوگ گیم کھیلنے لگے۔ پھر ارسلان گیم ہار گیا۔ یونس نے یہ دیکھ کر اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔

’’ہی ہی ہی تمھیں تو کھیلنا ہی نہیں آتا۔ اف تم کتنے بے وقوف ہو۔ ‘‘

یہ یونس میاں کی عادت تھی کہ وہ اکثر اپنے دوستوں کا مذاق اڑاتے۔ اس دن بھی انہوں نے اپنے پڑوسی دوست ذیشان کا مذاق اڑایا ۔

’’اوہ تم کتنے موٹے ہو۔ تم بہت زیادہ کھانا کھاتے ہو ناں ۔ اسی لیے۔‘‘

اس بات پر ذیشان یونس میاں سے ناراض ہو گیا تھا اور ابھی تک دوبارہ ان کے گھر کھیلنے نہیں آیا۔

اب جب یونس میاں نے ارسلان کا مذاق اڑایاتو وہ بھی ناراض ہو کر چلا گیا۔