میرے سوہنے موہنے بچو!  جنگل میں ٹھنڈ ہونے لگی ہے اور ہنی میاں جو کہ ایک چھوٹے سے ہاتھی ہیں، اب اپنے گھر سےکم کم نکلتے ہیں۔  یہ کہانی جو ہم آپ کو سنانے جارہے ہیں اس وقت کی ہے جب گرمیوں کے دن تھے اور ہنی میاں کو جھولے لینے کا بہت شوق تھا۔  

درختوں کی شاخوں سے بنا ہوا اور نیچے تک لٹکا ہوا۔ یہ اصل میں بندروں کا جھولا تھا۔  اس دن وہ خوراک لینے کہیں دور گئے ہوئے تھے۔ ہنی میاں وہاں سے گزرے تو انہوں  نے سوچا موقع اچھا ہے۔ آج میں جھولا لیتا ہوں ۔ انہوں نے بیٹھتے ہی پاؤں سے زور لگایا تو جھولا اوپر اٹھ گیا۔

لیکن یہ کیا! جب تک ہنی کے پاؤں دوبارہ زمین کو چھوتے، جھولے سے ’’تڑخ تڑخ‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔

 

بس پھر کیا تھا بچو! جھولا ’’تڑاخ‘‘ سے ٹوٹ گیا اور ہنی میاں زمین پر آگرے۔

’’آہ آہ!  میری توبہ! اب میں جھولا نہیں لوں گا۔ آہ اف!‘‘ ہنی میاں کی آوازیں سن کر گلہری دوڑی آئی ۔ اس نے جو ٹوٹا ہوا جھولا اور ہنی میاں کو زمین پر پڑے دیکھا تو کہنے لگی۔

’’اوہ!! ہنی میاں! آپ کو کس نے کہا تھا اس جھولے پر بیٹھنے کو۔آپ تو ہاتھی ہیں اور یہ جھولا بندروں کے لیے ہے۔ویسے بھی اب بندر آپ سے نہیں بولیں گے۔ آپ نے ان کا جھولا توڑ دیا ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں  مجھے پتہ ہے۔ بس تم دیکھنا! میں اب اپنے لیے ایک جھولا بناؤں گا جو بالکل نہیں ٹوٹے گا۔‘‘یہ کہہ کر  ہنی میاں ٹانگوں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوئے اور اپنے گھر کی طرف دیے۔

پیارے بچو! ہنی میاں نے اس دن بہت سارے  منصوبے بنائے۔ کبھی وہ سوچتے کہ کیلے کے چھلکوں سے بنا ہوا جھولا کیسا رہے گا۔ کبھی وہ بانس کے ڈنڈے لے کر ان پر جھولا لینے کی کوشش کرتے لیکن بانس تو بہت جلدی ٹوٹ جاتا تھا ۔ پھر انہوں نے سوچا بندر وں سے ہی مدد لے لوں کیونکہ  انہیں بہت اچھا جھولا بنانا آتا ہے۔ لیکن بندر ان کے ناراض تھے۔

اگلے دن ہنی میاں بہت سارے کیلے لے کرایک  بندر کے پاس گئے۔ اس کا نام بنٹو تھا۔ ہنی میاں نے سب کیلے بنٹو کو تحفے میں دیے اور کہا۔

’’پیارے بنٹو ! مجھے معاف کر دو۔ میں نے آپ لوگوں کا جھولا توڑا۔ ا ب ایسا نہیں کروں گا۔ لیکن مجھے جھولا لینے کا بہت شوق ہے ۔ تو کیا آپ میرے لیے ایک جھولا بنا سکتےہو۔‘‘

بنٹو نے کہا۔ ’’ہنی میاں! کوئی بات نہیں۔ دیکھو!جھولا بن تو جائے گا لیکن آپ بہت بھاری ہو۔ آپ  اس جھولے پر نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘

’’اچھا!  چلو  یونہی سہی!‘‘ ہنی میاں یہ سن کر اتنا اداس ہو گئے کہ اپنے گھر چلے گئے اور پھر سارا دن گھر سے نہیں نکلے۔

ادھر بنٹو کے ذہن میں ایک  خیال آیا۔ کیوں نہ  اس ٹائر سے ہنی میاں کے لیے جھولا بنا لوں جو مالٹے کے  درخت کے نیچے پڑا ہوا تھا۔ یہ ٹائرایک جیپ جنگل میں چھوڑ گئی تھی۔ پھر بنٹو نے لمبی لمبی تین مضبوط رسیاں تیار کیں اور سیاہ رنگ کے ٹائر کے ساتھ باند ھ دیں۔ پھر اس نے یہ رسیاں ایک موٹی سی شاخ کے ساتھ لٹکا کر گرہ باند ھ دی۔

اب ہنی میاں کے لیے جھولا تیار تھا۔ لیکن انہیں بتائے کون؟ کیونکہ بنٹو کو ہنی میاں کا گھر کا پتہ نہیں معلوم تھا۔

خیر! کچھ دن بعد ہنی میاں ویسے ہی وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا۔ ٹائر سے بنا ہوا ایک  زبردست جھولابندھا ہوا تھااور آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔

’’واہ! واہ! یہ تو میرے لیے ہے۔‘‘ انہوں نے نعرہ لگایا اورٹائر پر سوار ہوگئے۔ ان کے بوجھ سے ٹائر ادھر ادھر جھولنے لگا تو ہنی میاں کو بہت مزا آیا۔ وہ اور زور زور سے جھولا لینے لگے اور ساتھ ساتھ گانے لگے۔

’’جھولا لے لو جھولا لے لو ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا کے ساتھ!

پتے پھول گھاس اور شبنم۔۔۔میرے ساتھ لہرائیں

بندر بھالو چڑیا مینا۔۔۔ آپ بھی آجائیں

دیکھو اپنی باری پہ سب ۔۔۔  جھولا لیتے جائیں

کوئی کسی کو دھکا نہ دے۔۔۔  نہ ہی شور مچائیں

بنی کو مل کر بولیں  سب۔۔۔جھولے کے لیے شکریہ!

کچھ کیلے، شہدیا  مکئی ۔۔۔ بنی کو دیتے جائیں‘‘

پھر ہنی میاں جھولے سے نیچے اتر آئے ۔

’’بنٹو بھائی ! تمھارا شکریہ! تم نے بہت اچھا جھولا بنایا ہے۔‘‘ ہنی میاں نےکہااور گھر چلے آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارے بچو! جب بھی کوئی آپ کی مدد کرے تو اس کو شکریہ اور جزاک اللہ کہیں۔ایسا کہنے سے اللہ پاک خوش ہوتے ہیں اور آپ کی مدد کرنے والا بھی آپ سےپیارکرنے لگتا ہے۔

 

 {rsform 7}