رابی گڑیا آج بہت خوش تھیں ۔ہوا کچھ یوں کہ آج انہوں نے ماما کو ٹافیاں رکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔رابی کو ٹافیاں بہت ہی پسند ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ  ماما انہیں روزانہ صرف ایک ہی ٹافی کھانے کو  دیتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا ۔

’’اچھے بچے زیادہ ٹافیاں نہیں کھاتے۔ دانت خرا ب ہو جاتے ہیں ،کیڑا لگ جاتا ہے۔‘‘

لیکن رابی کا دل تو د س ٹافیاں کھانے کو چاہتا تھا۔

سوآج جب رابی کو پتہ چلا کے ماما نے اپنے  بیگ میں ٹافیاں رکھی ہیں تو وہ بہت خوش ہوئی ۔

شام کو جب سب باہر لان میں بیٹھے تھے تورابی گڑیاکمرے میں آئیں اور الماری کے ہینڈل سے  لٹک کر ماما کا بیگ نکال لیا۔

 

’’ارے واہ! اتنی ساری !‘‘ ان کے منہ سے نکلا۔ پھر انہوں نے اپنی سویٹر کی دونوں جیبیں ٹافیوں سے بھر لیں۔

جب تک ٹافیاں ختم نہ ہوئی رابی گڑیا باہر نہ گئیں۔ بابا جان نے بلایا بھی۔

’’رابی! کہاں ہو ! دیکھو میں کتنے مزےدار سیب لایا ہوں۔‘‘

رابی گڑیا کیسے جواب دیتیں۔ ان کے منہ میں تو دونوں جانب ٹافیاں رکھی ہوئی تھیں۔

خیر! رات ہوئی تو رابی گڑیا درد سے تڑپ اٹھیں۔

’’اوہ یہ کیا؟ یہ میرے پیٹ میں کیاہورہاہے؟ ‘‘ رابی کو تو رونا آیا کیونکہ اس کے پیٹ میں بہت درد ہو رہا تھا ۔سب بہت پریشان ہوئے اوررابی کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے  ۔پھر رابی کو کڑوی کڑوی دوا یا کھانا پڑی ۔

جب رابی ٹھیک ہو گئیں تو انہوں نے ماما کو ساری بات بتائی۔

’’سوری ماما! میں نے آپ کے بیگ سے ڈھیر ساری ٹافیاں نکال کر کھا لی تھیں۔ اب ایسا نہیں کروں گی۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ ٹوپی کے اوپر سے کانوں کو لگائے تو ماما جان ہنس پڑیں اور انہیں خوب پیار کیا۔

 اب رابی روزانہ صرف ایک ہی ٹافی کھاتی ہیں۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے کہ زیادہ ٹافیاں کھانا اچھی بات نہیں۔