! عبدو نے چیونگم کھائے

ننھے منے عبدوکو آپی جان نے چیونگم کا ایک پیکٹ کیا لا کر دیا پورے گھر میں طوفان ہی برپا ہو گیا۔ بھائی جان دوڑے ہوئے آئے ۔ ان کے ہاتھ میں ان کے یونیفارم کی پتلون تھی جس پر عبدو میاں نے بہت احتیاط کے ساتھ چیونگم چپکا رکھا تھا!

 امی جان کچن میں گئیں تودادا ابا کے لیے دلیہ بناتے بناتے شیلف کی نچلی دیوار پر نظر پڑی۔ دیکھا کہ تازہ تازہ چیونگم یہاں بھی ٹائل کے ساتھ  چپکا ہوا ہے۔

 دادی جان چلائیں ۔

’’اری  بہو! یہ میرے تخت کے ساتھ کیسی گوند لگا رکھی ہے۔ دوپٹہ پر لیس چھوڑے چلی جاتی ہے۔ کم بخت  اترنے کا نام نہیں لے رہی۔‘‘

اور تو اور خود آپا جان کا گلابی بیگ بھی عبدو میاں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ اس دن جب انہوں نے سائنس کا جرنل بیگ سے نکالنے کی کوشش کی تو  اس کا کور پھٹتا چلا گیا۔ شاید عبدو میاں نے چیونگم چپا کر بیگ میں ڈال دیا تھا!

پھر جب دادا ابا کی   نئی قمیص کی جیب سے بھی ایک عدد چیونگم برآمد ہوا  جو امی جان نے برف کی ٹکیا لگا لگا بڑی مشکل سے اتارا تو مانو عبدو میاں کی شامت آ ہی گئی۔  

شام ڈھلے جب سب چائے کی میز پر اکھٹے تھے تو دادا ابا نے کہا۔ ’’یہ عبدو میاں کو چیونگم کس نے لا کر دیے ہیں؟‘‘

اب عبدو میاں آنکھیں مٹکا کر آپا جان کو  یوں دیکھنے لگے جیسےخود تو بری الذمہ ہو گئے ہوں! آپا جان سے تو کچھ بولا ہی نہیں گیا لیکن دادا ابا سمجھ گئے۔ انہوں نے کہا۔’’دیکھو میرے بچو! چیونگم آپ کے دانتوں کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس سے  دانتوں میں کیڑے بھی لگ سکتے ہیں۔آپ کواپنے  جیب خرچ کا کوئی صحت مند اور اچھا استعمال کرنا چاہیے۔ پھر عبدو میاں کے لیے تو چیونگم کا استعمال اور بھی خطرناک ہے۔ خدانخواستہ یہ چیونگم نگل گئے اور وہ ان کی سانس کی نالی میں چلا گیا تو کیا ہو گا؟ اور عبدو میاں! کوئی بھی چیز کھا کر اس کا کاغذ ادھر ادھر نہیں پھینکنا چاہیے۔ آپ نے نہ صرف چیونگم کے کاغذ بلکہ چبایا ہوا چیونگم بھی یہاں وہاں پھینک ڈالا جس سے سب کی کوئی نہ کوئی چیز خراب ہو گئی ۔ چلیے جلدی سے سبھی کو  سوری بولیے۔پھر ہم آپ کو ایک پیاری سی کہانی سنائیں گے۔‘‘

اتنی لمبی ڈانٹ پر عبدو میاں روہانسے ہو چکے تھے لیکن کہانی کا لفظ سنتے ہی ا ن کے چپرے پر چمک آگئی اور انہوں نے جلدی سے سب کو سوری کہ دیا۔

’’دادا جان اب کہانی سنائیے ناں!‘‘ عبدو میاں دادا جان کے پاس آکر بیٹھ چکے تھے۔ ساتھ ہی تخت پر دادی جان بھی بیٹھی تھیں۔ ’’ارے بیٹا! لو آج میں بھی سنوں گی کہ تمھارے دادا ابا کیا کہانی سناتے ہیں۔‘‘ وہ بولیں۔

’’چلو سنو! ‘‘ دادا ابا کھنکھارے اور کہنا شروع کیا ۔’’ یہ کہانی ہے ایک ایسے بچے کی جس کی  دادی جان اس سے ناراض ہو گئی تھیں!‘‘  

’’لیکن کیوں دادا ابا!‘‘ عبدو میاں حیران ہوئے۔

’’اس لیے  کہ ایک دن اس نے  اپنی دادی جان کے تخت پر کوئی لیس دار گوند چپکا دی جس کے ساتھ ان کا ڈوپٹہ چپک کر رہ گیا۔ ‘‘ یہ کہ کر دادا جان کھلکھا کر ہنس پڑے  کیونکہ اب دادی جان  انہیں اپنی عینک کے اوپر سے باقاعدہ گھورنے لگیں تھیں!


{rsform 7}