arrownew e0میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ان چڑیوں کی جو آم کے درخت پر رہا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک چڑیا کا نام بنٹی تھا۔ بنٹی ایک بار دانہ چگنے ساتھ والے گاؤں میں گئی تو ا س نے دیکھا بہت ساری سفید رنگ کی چڑیاں دیوار پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ آپس میں کہ رہی تھیں۔

’’اب ہمیں کہاں جانا چاہیے؟‘‘

’’ہمم! ایسا کرتے ہیں آموں والے جنگل کے بادشاہ شیر سے پوچھتے ہیں۔‘‘

’’ہو سکتا ہے ہمیں وہاں رہنے کے لیے درخت مل جائیں۔‘‘

سفید چڑیاں پریشان نظر آتی تھیں۔ بنٹی نے ان کی باتیں سنیں تو ان سے کہنے لگی۔

’’آپ سب میرے ساتھ آئیں۔ میں آپ کو شیر بادشاہ کے پاس لے چلتی ہوں۔‘‘

جب سب چڑیاں شیر بادشاہ کے پاس پہنچیں تو سفید چڑیوں  نے کہا۔

’’بادشاہ سلامت! ہمارے جنگل میں بہت دنوں سے بارشیں نہیں ہوئیں۔ ہمارے درخت سوکھ گئے ہیں ۔ کیا ہم آپ کے جنگل میں رہ سکتے ہیں؟‘‘

شیر بادشا ہ نے نہ صرف ان کو اجازت دے دی بلکہ  اپنے جنگل کی سب چڑیوں کو ان  کے گھر بنانے میں مدد کرنے کا کہا۔

یوں سفید چڑیاں بھی بنٹی کے آم والے درخت پر رہنے لگیں۔ ایک دن بنٹی سو کر اٹھی تو اس نے دیکھا۔ ایک سفید چڑیا کے گھر کے باہر آم کے چھلکے پڑے تھے۔ بنٹی نے کہا۔

’’پیاری بہن! آپ یہ چھلکے درخت کے نیچے پڑے ہوئے کوڑے دان میں ڈال دیں۔ ہر شام کو بھالو میاں آتے ہیں اور کوڑے دان خالی کر دیتے  ہیں۔ ‘‘

لیکن سفید چڑیا نے بنٹی کی بات نہ مانی۔ وہ ہر روز بہت سارا کچرا اپنے گھونسلے کے باہر پھینک دیتی۔ کبھی  پھلوں کے چھلکے، کبھی بچے ہوئے خراب چاول  اورکبھی ٹوٹے ہوئے تنکے۔ یہ سارا کچرا درخت کی شاخوں پر گرتا اور پھیل جاتا۔

ایک روز برگد کے درخت سے بنٹی کی دوست چوں چوں اس سے ملنے آئی۔

’’ہائیں! اتنا گندا درخت! توبہ توبہ! بنٹی ! تم یہاں کیسے رہتی ہو؟‘‘

’’بس وہ۔۔ ایسے ہی!‘‘

بنٹی نے ادھر ادھر دیکھا اور شرمندگی سے کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح  بنٹی تھوڑا جلدی اٹھ گئی۔ اس نے درخت کی شاخوں پر سے تنکے، خراب چاول اور چھلکے اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیے۔ پھر جھاڑو دیااور ایک گیلا کپڑا لگا کر سارا درخت چمکا دیا۔

جب سفید چڑیا سو کر اٹھی تو اس نے دیکھا سارا درخت صاف ہو چکا تھا۔ کہیں بھی کوئی کچرا نظر نہیں آتا تھا۔ شاخیں اور پتے بھی دھلے دھلے اور چمک دار لگ رہے تھے۔ سفید چڑیا پہلے تو اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چھلکے یونہی پھینکنے لگی پھر اسے شرمندگی سی محسوس ہوئی۔کچھ دیر بعدوہ پھُر سے اڑی اور سارا کچرا نیچے پڑے ہوئے کوڑے دان میں ڈال دیا۔ پھر ساتھ والے درخت پر رہنے والی گلہری نے سفید چڑیا کو بتایا کہ کس طرح بنٹی نے صبح صبح اٹھ کر سارے درخت کی صفائی کی۔ سفید چڑیا کو اور شرمندگی ہونے لگی۔

تھوڑی دیر بعد بنٹی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سفید چڑیا پلیٹ میں گرما گرم کھانا لیے کھڑی تھی۔

’’تمھارا بہت شکریہ پیاری بنٹی! تم نے مجھے صفائی کی خوبصورتی دکھا دی۔ مجھے معاف کر دو۔ اب میں ہمیشہ سارا کچرا کوڑے دان میں ڈالوں گی۔ یہ لے لو۔ تم تھک گئی ہو ناں۔ بس آج دونوں وقت کا کھانا میر ی طرف سے کھاؤ۔‘‘ یہ کہ کر سفید چڑیا نے بنٹی کو پلیٹ پکڑائی اور اپنے گھر کی طرف چل دی۔ ابھی اس نے آم کے چھلکے بھی کوڑے دان میں ڈالنے تھے!  

پیارے  بچو! ہمیں کچرا ادھر ادھر نہیں بکھیرنا چاہیے۔ گندی جگہ کسی کو اچھی نہیں لگتی۔ کچرا ہمیشہ کوڑے دان میں ڈالنا چاہیے۔ اللہ پاک صاف رہنے والوں سے پیار کرتے ہیں۔