میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ننھے منے  بھالو ٹیڈی کی جس کو بہت ٹھنڈ لگتی تھی۔ ٹیڈی کا گھر ایک بڑے سے  درخت کے تنے میں بنا ہوا تھا۔  اس میں دو خوابگاہیں، ایک بیٹھک اور صحن تھا۔ بیٹھک میں ایک بڑا سا آتش دان تھا جس میں امی جان نے بہت ساری لکڑیاں رکھ دی تھیں۔ جب رات ہوتی تو ان لکڑیوں میں آگ لگا دی جاتی۔ اس آگ کی تپش سے سارا گھر گرم ہو جاتا۔جب برف پڑتی تو ٹیڈی آگ کے پاس بیٹھ جاتا اور اپنے ہاتھ سامنے کر دیتا۔ جب اس کے ہاتھ گرم ہوتے تو اسے بہت مزہ آتا۔

اس دن موسم صاف تھا۔ ٹیڈی  بھالو نے ناشتہ کرتے کرتے کھڑکی میں سے باہر دیکھا۔

’’امی ! کیا آج میں اپنے دوست شانی کے گھر چلا جاؤں؟‘‘ ٹیڈی نے منہ میں نوالہ رکھے رکھے پوچھاتواس کا منہ اور پھول گیا۔


’’جی بیٹا! آپ ضرور جائیں  ۔ ‘‘

جب ٹیڈی بھالو تیار ہو کر گھر سے نکلنے لگا تو امی جان نے کہا۔

’’بیٹے! آپ شانی بھالو کے لیے یہ تحفہ بھی لے جاؤ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے امی جان نے اسے شہد کی ایک بڑی سی بوتل تھما دی۔

ٹیڈی بھالو نے  بوتل اٹھائی اور تیز تیز قدموں سے شانی بھالو کے گھر کی طرف چل پڑا۔ شانی بھالو کا گھر تھوڑا دور تھا۔ وہاں پہنچتے پہنچتے ٹیڈی بھالو کو دوپہر ہو گئی۔ شانی بھالو اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ اس نے شہد کی بوتل شکریہ کے ساتھ لے لی اور کچن میں رکھ دی۔ پھر دو شام تک کھیلتے رہے۔ شانی بھالو کی امی جان نے بہت مزے دار مچھلی پکائی تھی۔ آخر کار ٹیڈی بھالو نے واپس جانے کا سوچا اور شانی بھالو سے کہا۔

’’اچھا ! میں اب چلتا ہوں۔ اگلی بار تم میرے گھر آنا۔ میں تمھیں وہ والی ریل گاڑی دکھاؤں گا جو میرے ماموں لائے تھے۔‘‘

’’ٹھیک ہے!‘‘ شانی بھالو نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔

ابھی ٹیڈی بھالو تھوڑا سا ہی چلا ہو گا کہ آسمان بادلوں سے بھر گیا  اور بارش شروع ہو گئی۔ ٹیڈی بھالو کو ٹھنڈ لگنے لگی۔ ویسے تو امی جان نے اسے فر والا کوٹ اور ٹراؤزر پہنایا تھا لیکن بارش  کی وجہ سے اس کے کپڑے بھیگ گئے۔ اسے بہت ٹھنڈ لگنے لگی۔ جب وہ اپنے گھر پہنچا تو امی جان دروازے میں پریشان کھڑی تھیں۔ان کے ہاتھوں میں تولیہ اور نئے کپڑے تھے۔ ٹیڈی بھالو کو اندر لاتے ہی انہوں نے اس کے کپڑے بدلے اور اسے آتش دان کے آگے بٹھا دیا۔ آگ کے پاس بیٹھ کر ٹیڈی بھالو کو بہت آرام محسوس ہوا۔ اس نے کشن تھوڑا سا آگے کر لیا اور آگ کے زیادہ پاس  ہو کر بیٹھ گیا۔ اسے اور مزہ آیا۔

اس نے سوچا ۔ یہ آگ تو بڑے مزے کی ہے۔ بہت آرام دیتی ہے۔ کیوں نہ میں اسے چھو کر دیکھوں۔ ننھے سے ٹیڈی نے سوچا اور آگ کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

’’آہ۔۔۔۔ آہ  ہ ہ ہ ہ !   امی جان ن ن ن ن‘‘

امی جان دوڑی ہوئی آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ ننھے  ٹیڈی بھالو کی گلابی انگلی سرخ ہو گئی تھی۔ اسے بہت جلن ہو رہی تھی۔امی نے اس کے ہاتھ پر دوا لگائی اور پٹی باندھ دی۔ پھر امی جان نےٹیڈی کو سمجھایا۔

’’میرے ننھےبیٹے! آگ سے ہمیں گرمائش ملتی ہے لیکن اگر ہم اس کے بہت پاس جائیں گے تو یہ ہمیں جلا دے گی۔ آگ کے پاس نہیں جانا چاہیے۔‘‘

’’جی امی ! ٹھیک ہے‘‘  ٹیڈی  بھالونے مشکل سے کہا۔ اسے ابھی تک انگلی میں درد ہو رہا تھا۔پھر اس نے آتش دان میں جلتی لکڑیوں کو دیکھا اور پوچھا۔

’’امی! لکڑی  کو آگ سے درد  نہیں ہوتی۔ بھلا کیوں؟‘‘

امی جان ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں۔

’’کیونکہ اللہ پاک نے لکڑی کو اسی طرح کا بنایا ہے  کہ یہ آگ میں جل سکے اور ہمیں سردی میں گرمائش پہنچا سکے۔ لکڑی درخت سے آتی ہے اور درخت کا کام ہمیں فائدہ پہنچانا ہے۔‘‘

ننھے منے ٹیڈی بھالو نے امی کی باتیں غور سے سنیں  اور سوچا۔’’ جب شانی بھالو آئے گا تومیں اسے یہ سب باتیں بتاؤں گا۔ آہا! کتنا مزہ آئے گا۔ لیکن میں ریل گاڑی کیسے چلاؤں گا؟  میری تو انگلی میں درد ہے۔آہ۔۔!  اوہ۔۔! ‘‘ یہی سوچتے سوچتے ٹیڈی بھالو سو گیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ شانی آگیا ہے اور وہ ایک ہاتھ سے ریل گاڑی کا انجن چلا رہا ہے۔ گھوں گھوں گھوں!!