میرے سو ہنے موہنے بچو! آفی اس دن جب وہ فرش پر بیٹھا کھیل رہا تھاجب ایک چیونٹی ، جس کا نام بینو تھا، اس کے پاس سے گزری۔ آفی نے جلدی سے اس کے آگے ہاتھ کی دیوار سی بنا دی۔بینو رک گئی۔ اس نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ آفی نے چھوٹا سا ہاتھ آگے رکھ کر اس کا راستہ بند کر دیا تھا۔
’’ اوہ اب کیا کروں؟ آفی بھائی! مجھے جانے دو۔ میرے بابا میرا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘بینو کہ رہی تھی۔ لیکن آفی نے ہاتھ نہ ہٹایا۔اس کو مزہ آرہا تھا۔ جب وہ راستہ ڈھونڈ کر تھک گئی تو آفی نے ہاتھ ہٹا لیا۔
جب چھوٹی سی چیونٹی بینو اپنے گھر پہنچی تو پہلے تو اس نے ڈھیر سارا پانی پیا کیونکہ اسے بہت پیاس لگ گئی تھی۔ پھر اس نے اپنے بابا کو بتایا کہ کیسے آفی نے اسے تنگ کیا اور کافی دیر تک اسے جانے نہیں دیا۔
بینو کے بابا نےدوبارہ اس راستے پر جانےسے منع کر دیا ۔’’اب تم صحن کی پچھلی والی دیوار سے آجایا کرو۔ درمیان سے نہ آنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ بینو نے کہا اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔ وہ بہت تھک گئی تھی ۔
اس دن صبح سے ہی تیز بارش تھی۔ امی جان نے آفی کو کمرے میں بچھی کارپٹ پر بٹھا دیا کھلونے بھی ساتھ رکھ دیے۔ آفی ساتھ ساتھ بسکٹ کھارہا تھا۔ بسکٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے زمین پر گرے تو بینو کو خوشبو آنے لگی۔ اس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھا۔ دور کارپٹ پر چاکلیٹ والے بسکٹ کے ٹکڑے گرے ہوئے تھے۔ وہ جلدی سے اپنی سہیلی شینو کے ساتھ نکلی اور کارپٹ کے پاس پہنچ گئی۔ آفی نے دونوں چیونٹیوں کو آتے دیکھ لیا تھا۔
’’بینو یہ کون ہے؟‘‘ شینو نے پوچھا تو بینو کہنے لگی۔
’’یہ آفی ہے۔ یہ اچھا بچہ نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارا راستہ روک لیتا ہے ۔ ایک بار اس نے میرے بابا کو اپنی انگلیوں میں دبایا تھا۔ ان کو بہت درد ہوئی تھی۔ اور وہ ساری رات جاگتے رہے تھے۔‘‘
’’اوہ! تو پھر یہاں سے چلو ۔ یہ نہ ہو کہ یہ ہمیں بھی پکڑ لے۔مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ شینو نے کہا اور مڑنے لگی۔بینو نے اسے رکنے کو کہا لیکن شینو نے بینو کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے بھی اپنے ساتھ واپس لے گئی۔
میرے پیارے بچو! آفی، بینو اور شینو کی ساری باتیں سن چکا تھا اور دل ہی دل میں شرمندہ تھا کہ اس نے چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کو پریشان کیا اور درد بھی پہنچایا۔ اس نے سوچا کہ اب مجھے بینو اور شینو کو خوشی دینی چاہیے۔
اگلی صبح جب بینو اٹھی تواس کو چاکلیٹ کی بہت خوشبو آئی۔ جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے بسکٹوں کے بہت سارے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔