میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پینگوئن پنگو کی جو اپنے امی ابو کے ساتھ تھا۔پنگو کی چونچ سرمئی ، پر کالے، پاؤں زرد اور باقی سارا جسم سفید تھا۔ ہاں ناں  بچو ! یہ  ایک بہت ہی پیارا پینگوئن تھا!  پنگو پینگوئین کا گھر برف سے بنا ہوا تھا۔ یہ گھر اس کے امی ابو نے مل کر بنایا تھا۔

ایک دن پنگو  اکیلےکھیل کھیل کر تنگ آ گیا۔ اس نے کہا۔

’’امی جان! مجھے نانو کے گھر جانا ہے۔ میں وہاں پونی کے ساتھ کھیلوں گا۔‘‘

پونی پنگو کے ماموں کی بیٹی تھی۔ امی جان نے سنا تو کہنے لگیں۔

’’ٹھیک ہے۔ تم اپنا بیگ تیار کر لو۔ ہم کل ہی چلتے ہیں۔‘‘

اگلی صبح امی جان نے کچھ تازہ مچھلیاں پکڑیں، انہیں ایک ٹفن میں رکھا اورپنگو کا ہاتھ پکڑ کر چل دیں۔راستے میں پنگو پلان بناتا  رہاکہ پونی سے کیا کیا کھیلنا ہے۔ جب اسے دور سے نانو کا گھر نظر آیا تو اس نے ایک چھلانگ لگائی اور دور تک برف پر پھسلتا گیا۔

 

آخر گھر کے پاس پہنچ کر پنگو نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بولا۔’’ میں آ گیا نانو میں آ گیا! ‘‘

دروازہ پونی نے کھولا اور منہ بنا کر پنگو کےپروں کو دیکھا جو برف سے بھر گئے تھے۔

’’ہونہہ! اپنے پر جھاڑ کر اندر آنا۔ میں نے ابھی صفائی کی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر پونی اندر چلی گئی۔

’’جی نہیں! میں تو اندر آ کر ہی پر صاف کروں گا۔ اف!پونی کو تنگ کرنے میں کتنا مزہ آتا ہے!‘‘ یہ کہہ کر پنگو اندر آ گیا۔ پھر اس نے اچھل اچھل کر پروں سے برف جھاڑی جو اڑ اڑ کر میز اور صوفوں پر جا گری۔

’’آہا! میرا بیٹا پنگو آیا ہے۔ کیسے ہو تم  میرے بچے!‘‘ پنگو کی نانو نے اندر آتے ہی کہا اور پنگو کو خوب پیار کیا۔پھر انہوں نے پونی کو آواز دی۔

’’پونی ! پونی بٹیا! جلدی سے  مہمانوں کے لیے سوپ بنا کر لاؤ۔ دیکھو تو پنگو کتنی سردی میں آیا ہے۔‘‘

جب پونی سوپ اور چاول بنا کر مہمان خانے میں لائی تو اس نے دیکھا۔ صوفوں اور میز پر پڑی برف اب پگھل رہی تھی۔

’’ یہ پنگو! جب بھی آتا ہے کتنا تنگ کرتا ہے۔ سارا کچھ گیلا کر دیا۔ ‘‘

یہ کہہ پونی ایک کپڑا لائی اور دوبارہ سے صفائی کرنے لگی۔

کھانے کے بعد نانو نے کہا۔

’’پونی ! اپنے کھلونے لے آؤ اور پنگو کے ساتھ کھیلو۔‘‘

پونی اپنے کھلونے لے آئی۔ اس کے پاس دو چھوٹی چھوٹی بطخیں اور ایک سلائیڈ تھی۔ جب بطخوں کو سلائیڈ کے اوپر رکھا جاتا تو وہ پھسل کر نیچے آجاتیں۔ پنگو کو یہ کھلونا بہت اچھا لگا۔

’’پونی یہ  بطخیں مجھے دے دو۔ ‘‘

’’کیوں کیوں! یہ میری ہیں۔ میں کیوں دوں؟‘‘

’’نہیں یہ مجھے لینے ہیں۔ یہ کھلونے مجھے اچھے لگے ہیں۔‘‘ پنگو نے ضد کی۔

پونی بولی۔’’جی نہیں! یہ میرے کھلونے ہیں۔ آپ کے نہیں۔ آپ اپنے کھلونوں سے کھیلو۔بس!‘‘

اس سے پہلے کہ پنگو اور پونی کی لڑائی ہو جاتی ، نانو وہاں  آ گئیں۔ انہوں نے کہا۔

’’پونی! آپ کچھ دیر کے لیے اپنے کھلونے پنگو کو دے دو۔ یہ مہمان آیا ہے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا جب پنگو آیا تو آپ نے منہ بنایا تھا۔ یہ تواچھی با ت نہیں!جو بچے مہمان  کے آنے سے خوش ہوتے ہیں ، انہیں اچھا اچھا کھانا کھلاتے ہیں، اچھی اچھی چیزیں دیتے ہیں اللہ پاک ان بچوں سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ مہمان کو خوش رکھنا چاہیے۔ اللہ پاک کے نبی ﷺ مہمان کو بہت آرام سے رکھتے تھے۔ کبھی تکلیف نہیں دیتے تھے۔ ‘‘

پونی نانو کی باتیں سنتی رہی۔

پھر پنگو کی امی بولیں۔’’پنگو! آپ نے بھی پونی کو تنگ کیا ہے۔ اس سے سوری کریں۔‘‘

پھر پنگو نے پونی سے معافی مانگی اور پونی نے بھی اپنے کھلونے پنگو کو کھیلنے کے لیے دے دیے۔

میرے پیارے بچو! آپ کے گھر بھی جب مہمان آئیں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں، انہیں مزیدار کھانا کھلائیں  اور انہیں خوب آرام دیں۔ اس طرح کرنے سے اللہ پاک آپ سے بہت خوش ہوں گے۔اب میں چلتی ہوں۔ میں نے اپنے مہمانوں کے لیے گرم گرم سوپ بنانا ہے!