پیارے بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں دو خرگوش رہتے تھے۔ ایک کا نام سونو اور دوسرے کا نام مونو تھا۔سونو بڑا اور مونو چھوٹا تھا ۔ دونوں بھائی گول مٹول اور بہت پیارے تھے۔مونو کا رنگ سفید اور سرخ تھا۔اپنے رنگ کی وجہ سے سب سے الگ لگتا  تھا۔مونو دوسرے خرگوشوں کا مذاق اڑاتا تھا اور ان کو تنگ بھی کرتا تھا۔ 

بہت دفعہ  سونو نے مونو کو سمجھایا کہ وہ دوسروں کو تنگ نہ کیا  کرے ۔تمہاری وجہ سے دوسرے جانوراداس ہو جاتے ہیں مگر سونو کہاں اس کی بات سنتا تھا ۔ وہ بس شرارتوں میں لگا رہتا۔ کبھی کسی کی گاجر کھا جاتا کبھی کے جوتے چھپا دیتا۔ کئی بار وہ بند ر انکل کے کیلے چھپا دیتا تھا۔ بندر انکل اسی لیے مونو سے ناراض تھے۔  

مونو کے بالکل الٹ،  سونو  بہت اچھا تھا۔ وہ دوسروں کا خیال رکھتا تھا اور کبھی کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا۔  اس لیے جنگل کے سارے جانور اسکے دوست تھے۔


ایک دن شرارتی مونو کھانے کی تلاش میں گھر سے نکلا گیا۔برگد والا درخت، آم کا درخت، انگور کی بیل،بھالو انکل کا گھر، مینڈک والا تالاب، بندر انکل والا درخت۔ یہ کیا! یہ تو بندر انکل کا گھر آگیا تھا۔ اس  کا مطلب تھا کہ  مونو اپنے گھر سے بہت آگے نکل آیا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے ڈر لگنے لگا۔ اس نے سوچا پہلے کچھ دیر آرام کر لوں۔بیٹھے بیٹھے  اسکی آنکھ لگ گئی۔

اچانک کچھ شکاری وہاں سے گزرے۔انہوں نے جو اتنا پیارا خرگوش دیکھا تو فوراََ اسے اپنے پنجرے میں بند کر لیا ۔ مونو نے چیخ چیخ کر سب کو مدد کے لیے بلایا ۔’’میری مدد کرو۔ یہ مجھے لے کر جارہے ہیں۔اوہ میری مدد کرو سب!‘‘

بندر انکل نے پتوں کے پیچھے سے نکل کر دیکھا۔ سونو کو شکاری پنجرے میں لے کر جارہے تھے۔ وہ جلدی سے چھلانگ لگا کر نیچے آئے اور پنجرے کو ٹکر ماردی۔ شکاری  کے ہاتھ سے پنجرہ گر گیا اور اس کا دروازہ کھل گیا۔ مونو جلدی سے نکلا اور بھا گ گیا۔ بند ر انکل بھی چھلانگ لگا کر درخت پر چڑھ گئے۔ شکاری کو غصہ تو آیا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھے اور چلے گئے۔

پیارے بچو!اب بندر انکل کے کیلے والے غائب نہیں ہوتے۔ مونو نے  ان سے معافی مانگ لی اور اچھا بچہ بن گیا ہے۔اور ہاں! اب اگر آپ اسے شرارتی کہیں گے تو وہ برا مان جائے گا! ا ٓپ بھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی بجائے مل جل کر رہا کروتاکہ سب آپ کے دوست بن جائیں۔